دہشت گرد کا بھائی خود ڈولفن پولیس کا اہلکارنکلا

ساہیوال میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والا ذیشان جاوید جسے داعش کا کارندہ کاھا جا رہا ہےاس نے بارہویں جماعت تک کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی، جس کے بعد مقامی سکول میں بطور استاد کام کیا، پھر کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام کر رہے تھے۔ بعد میں اس نے کمپیوٹر کا کاروبارشروع کیا لیکن نقصان اٹھانے کے بعد کریم آن لائن ٹیکسی سروس سے منسلک ہوگیا تھا۔‘
ذیشان کا بھائی جو پنجاب میں ڈولفن پولیس کے اہلکارہے، نے بتایا کہ ان کی سرکاری نوکری کے وقت انہوں نے اپنے بھائی کے شناختی کارڈ کی کاپی محکمے کو دی تھی اور ان کی نوکری اور تربیت تک کم از کم تین بار ان کے اہلخانہ کے تمام کوائف کی تصدیق متعلقہ ایجنسیوں نے کی تھی، ان کے بھائی ‘کسی بھی قسم کے مقدمے میں مطلوب تھے نہ ہی ان کے خلاف کبھی کسی تھانے میں معمولی نوعیت کی شکایت کا کوئی ریکارڈ موجود ہے’۔
اس طرح سینیٹر رحمان ملک نےبھی کہا کہ سی ٹی ڈی یعنی محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے اپنی رپورٹ میں ذیشان جاوید کو دہشتگرد قرار دیا مگر ان کے خلاف کوئی ایک ثبوت بھی فراہم نہیں کر سکی۔
یہاں سوال تو اٹھتا ہے کہ ڈولفن پولیس میں بھرتی کے کئے کوئی تحقیق نہیں کی جاتی ےا پھر ذیشان کو اپنے غلطیاں چھپانے کے لئے دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے-

اپنا تبصرہ بھیجیں