امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ روس، ایران اور شام کی اپنی لڑائی ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے ایران، روس اور شام کی دولت اسلامیہ کے خلاف مقامی لڑائی کا حصہ بننے کی توقع نہ کی جائے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے اعلان کے ایک روز بعد ترکی کے وزیر دفاع نے شمالی شام میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آنے پر شامی کرد ملیشیا کے ارکان کو ان کی خندقوں میں دفن کر دیا جائے گا۔

دریں اثناء شام میں لڑنے والے کردوں کے ایک اتحاد نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے اعلان اور شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے سے شدت پسند تنظیم کو خطے میں ایک بار پھر اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق امریکہ کے جانے سے علاقے میں ایک خلا پیدا ہو جائے گی، اور امریکہ کے اتحادی اپنے ’دشمنوں کے درمیان پھنس جائے گا‘۔

بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امریکی افواج شام سے نکل جاتی ہیں تو اس کے خطے میں قیامِ امن کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایک سیاسی اور عسکری خلا پیدا ہو جائے گا۔
اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر امریکی سینیٹر اور اتحادی ممالک بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جو کہ 100 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کی ’تاریخی کامیابیوں کے بعد وقت آ گیا ہے کہ انھیں گھر واپس لے آیا جائے۔‘

تاہم صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی صدر کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی ہے اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی اور ایران اور روس کی فتح قرار دیا ہے۔

برطانیہ نے بھی صدر ٹرمپ کے ان اندازوں پر سوال اٹھائے ہیں جن کے مطابق ان کے خیال میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کو شکست ہو چکی ہے۔

بدھ کو وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے بعد امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر دی گئی ہے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں اور امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ’مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔‘ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں۔

شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں نے بہت حد تک ملک کے شمال مشرقی حصے کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروایا ہے تاہم اب بھی وہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔
پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع کے حکام فوجیوں کی کچھ تعداد کو شام میں رکھنے کے حق میں ہیں تاکہ دولتِ اسلامیہ کو دوبارہ یکجا ہونے کا موقع نہ ملے۔

محکمۂ دفاع اور وائٹ ہاؤس کے بیانات میں یہ کہا گیا ہے کہ ’امریکی فوجیوں کی واپسی ہو رہی ہے کیونکہ ہم مہم کے اگلے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔‘

محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ وہ ’آپریشنل سکیورٹی‘ کی وجہ سے اگلے مرحلے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز کے مطابق امریکا شام میں کسی حد تک اپنی عسکری مصروفیات کو جاری رکھے گا۔

فوج کی واپسی کے فیصلے پر ردعمل
صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو امریکہ میں حزبِ مخالف اور خود ان کی اپنی جماعت کے سینیٹرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ اقدام ‘اوباما جیسی غلطی ہے’۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایران اور روس کی بڑی فتح ہے۔

سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے برا فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا ہے کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔

خیال رہے کہ ترکی نے رواں ہفتے ہی کہا تھا کہ وہ شمالی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ملیشیا شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی اتحادی ہے۔
سابق صدارتی امیدوار سینیٹر مارکو روبیو نے اس فیصلے کو ایک ایسی بڑی غلطی قرار دیا جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہوئی ہے۔

عالمی سطح پر جہاں روس کی جانب سے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے وہیں امریکہ کے اتحادی ممالک نے اس پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زخرووا نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے کے نتیجے میں شامل میں ’سیاسی سمجھوتے کے حقیقی امکانات روشن ہو گئے ہیں۔‘

برطانیہ کے وزیرِ دفاع ٹوبائس ایلوڈ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کو شکست ہونے کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے دعوے کے برعکس دولتِ اسلامیہ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس خطے پر اثرانداز ہونے کے دیگر ذرائع ہیں لیکن وہ اس بات کا جائزہ لیتا رہے گا کہ یہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے اسرائیل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

شام میں امریکی فوج کہاں ہے؟
شام میں امریکی افواج زیادہ تر ملک کے شمالی علاقوں میں تعینات ہیں جو کہ کرد علاقے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ نے چار برس قبل شام کے بڑے علاقے میں اپنا اثرونفوذ قائم کر لیا تھا اور امریکی افواج کے شامی کردوں اور عرب جنگجوؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے شمالی علاقے سے تقریباً دولتِ اسلامیہ کا صفایا ہو گیا ہے۔

تاہم اب بھی شدت پسند کچھ مقامات پر موجود ہیں۔ ایک حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت دولتِ اسلامیہ کے تقریباً 14 ہزار شدت پسند ہیں جبکہ ہمسایہ ملک عراق میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں