باتوں باتوں میں ۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ چودھری نثار کا ریورس گیئر

۔۔۔ چار میں سے تین حلقوں میں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونے کے بعد چودھری نثار علی خان نے ایسی چپ سادھی کہ ان کی بیٹ کوور کرنے والے صحافی خبر کو ترس گئے ۔ چھوٹے چھوٹے گاوں میں چھوٹی چھوٹی جلسیوں کو براہ راست کوریج دے کر چودھری نثار علی خان کو عالمی سطح کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے صحافی آج کل ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ مخالفین کو شرمناک شکست سے دوچار کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے آج شرم سے منہ چھپائے لندن میں بیٹھے ہیں ۔ گو کہ گذشتہ دنوں انہوں نے اپنے سمارٹ جسم میں موجود گردے میں سے کچھ پتھر بھی نکلوائے مگر یہ پتھر اتنے زیادہ نہیں ہیں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر برسا کر انہیں زخمی کر سکیں ۔ زخمی تو موصوف خود ہیں ایک تو شکست کا زخم اور دوسرا آپریشن کا زخم ۔آپریشن کا زخم تو امید ہے اللہ کے فضل سے جلد بھر جائے گا مگر شکست کا زخم بھرنے میں کافی وقت لگے گا۔

اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروانے والے چودھری نثار علی خان جب اس زعم میں مبتلا ہوئے کہ اب انہوں نے ہر مخالف کو زیر کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے تو انہوں نے اپنی جماعت، اپنی قیادت اور اپنے حلقے کے عوام کو اہمیت دینا چھوڑ دی ۔ عوام سے براہ راست رابطہ تو خیر انہوں نے پہلے بھی رکھنا کبھی گوارا نہیں کیا تھا مگر گذشتہ پانچ سال میں ان کی جسمانی بولی (باڈی لینگویج) اور طرز گفتگو میں جو فخر ، غرور اور تکبر نمایاں ہوا اس نے ان سے بے پناہ پیار کرنے والے عوام حلقہ کو ان سے متنفر کر دیا جس کا نتیجہ انتخابات میں چار میں سے تین حلقوں میں عبرت ناک شکست کی صورت میں سامنے آیا ۔کمال بلندی سے بے مثال پستی کا ایسا سفر شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔آنے والے دنوں میں اس بلندی اور پستی کو سیاست میں مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔

مثال تو چودھری صاحب کے عمل بے حسی کو بھی بنایا جائے گا کہ لندن میں موجودگی کے باوجود انہوں نے اپنے قائد اور دوست کی بستر مرگ پر پڑی بیوی کی عیادت کرنا بھی گوارا نہ کیا اور تو اور بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں اور اپنے بھتیجوں سے اظہار تعزیت کے لئے جانا بھی شائید ان کی شان میں کمی کا باعث بنتا اس لئے اس عمل سے بھی انہوں نے اپنے آپ کو دور رکھا ۔ جہاں تک تعلق ہے نواز شریف کو تعزیتی ٹیلی فون کا تو سارے جانتے ہیں کہ لندن سے پاکستان ٹیلی فون کافی مہنگا پڑتا ہے اور چودھری صاحب ٹھہرے انتہائی کفایت شعار اس لئے یہ عمل بھی ان سے سرزد نہ ہو سکا ۔ہاں البتہ انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے لندن میں ادا کئیے جانے والے نماز جنازہ میں شرکت ضرور فرمائی وہ بھی شائید اس لئے کہ وہاں ان کے یار غار شہبازشریف موجود تھے ۔

نواز شریف کی وزارت عظمی سے رخصتی کے بعد سے اب تک چودھری نثار علی خان کے تمام اعمال سب کے سامنے ہیں ان سب میں مسلم لیگ نواز کی قیادت اور کارکنان شامل ہیں قیادت کا غم و غصہ اپنی جگہ مگر کارکنان چودھری صاحب کے طرز عمل کو بھولنے کے لئے تیار نہیں اس لئے کہ جتنا نقصان انہوں نے جماعت کا پہنچایا شائید اس کی تلافی ممکن نہیں ۔گو کہ انہوں نے اب تلافی کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے اور آپریشن سے صحت یابی کے فورا بعد اسحاق ڈار کے در دولت پر حاضری دی ہے یہ وہ دوسرا قدم ہے جو انہوں نے حالات اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اٹھایا ہے پہلا قدم وہ لندن میں بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کر کے اٹھا چکے ہیں مگر کیا یہ دو قدم تعلقات کو بہتر بنا سکیں گے؟ تو اس کا صاف جواب ہے جی نہیں چودھری صاحب کو اور بھی بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔

جس بہت کچھ کرنے کی طرف ناچیز نے اشارہ کیا ہے وہ درویش کے برطانیہ میں موجود ذرائع بتاتے ہیں کہ چودھری نثار علی خان کرنے کو تیار ہیں لندن سے پاکستان واپسی پر چودھری صاحب اپنی پہلی فرصت میں بلکہ تمام دیگر مصروفیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے لاہور کا قصد کریں گے جہاں بظاہر نواز شریف سے ملاقات بیگم کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت ہو گی مگر اصل مقصد تعلقات کی بحالی ہو گا کہ گذشتہ تقریبا ڈیڑھ سال کی سیاست نے چودھری صاحب پر واضح کر دیا ہے کہ اپنے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج کی مانند وہ زیادہ دیر تک تنہا پرواز نہیں کر سکتے انہیں واپس اپنے ڈار کی طرف لوٹنا ہی ہو گا اسی لئے انہوں نے اسحاق ڈار کے لندن بسیرے کا رخ کیا تھا اور اب ان کا اگلا پڑاو جاتی امراء ہو گا یہ پڑاو اس لحاظ سے اپنے اندر بے پناہ دلچسپی کا سامان لئے ہو گا کہ چالیس سالہ رفیق جب اتنی تلخی کے بعد دوبارہ ملیں گے تو اس وقت نواز شریف کا رویہ کیسا ہو گا کیا ٹوٹا ہوا دل کا شیشہ ایک ملاقات کے لوشن سے جڑ جائے گا یا اس میں موجود بال آئیندہ بھی نظر آتا رہے گا اس سلسلے میں سب سے اہم کردار مریم نواز شریف نے ادا کرنا ہے جو چودھری نثار علی خان کی بے حد عزت کرتی ہیں اس کے باوجود کہ چودھری صاحب کے ارشادات ان کے بارے میں کچھ اچھے نہیں رہے قلم کار کے ذرائع کے مطابق مریم نواز شریف سب کچھ بھلانے کو تیار ہیں اسی لئے چودھری نثار علی خان نے ریورس گیئر لگانے کی تیاری کر لی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ریورس گیئر میں چلتی ہوئی اس گاڑی کی زد میں کون کون آتا ہے۔ خوف یہ بھی ہے کہ کہیں یہ گاڑی پچھلے قدموں پہ چلتی ہوئی خود ہی کسی کھائی میں نہ جا گرے ۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں