باتوں باتوں میں… طارق بٹ… خون سفید ہونے لگا

…بھولنے کی کوشش بھی کروں تو نہیں بھول سکتا کہ 2005 سے پہلے اس درویش نے معاشی طور پر بہت برا وقت دیکھا پس انداز سرمائے سے تین مختلف کاروبار کیئے مگر تینوں میں جمع شدہ سرمایہ ڈبونے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر پایا ایسے میں مجھ سے تین درجے چھوٹے ماں جائے طاہر کے دل میں موجود محبت کے جذبات نے ایک نئی انگڑائی لی اور اس نے مجھے برطانیہ بلا لیا جہاں میں نے زندگی اور چھوٹے بھائی طاہر کا ایک نیا روپ دیکھا – میری ملازمت کا بندوبست مانچسٹر سے ایک نئے شروع ہونے والے ٹیلی ویژن چینل میں ہوا تو بھائی نے جو کہ خود بریڈفورڈ میں مقیم تھا میرے لئے مانچسٹر میں ایک گھر کا بندوبست کیا اور میرے ساتھ اپنے ایک جاننے والے یونیورسٹی کے طالب علم کو ٹھہرا دیا کہ کھانا پکانے کا ڈھنگ مجھے آتا نہ تھا اس لئے یہ سب اس طالب علم زین العابدین کی ذمہ داری ٹھہری گھر کی صفائی اور کپڑے وغیرہ دھونا بھی زین نے اپنے ذمہ لے لیا کہ ناچیز سوائے بولنے کے ہر معاملے میں نکما اور نالائق ثابت ہوا – قصہ مختصر جتنے سال میرا برطانیہ میں قیام رہا میری رہائش، کھانا پینا ، کپڑے جوتے غرض تمام کے تمام اخراجات طاہر نے اپنے ذمہ لئے رکھے حالانکہ میں بھی اچھا خاصا کما رہا تھا مگر بھائی نے میری ایک پینی بھی نہ لگنے دی بلکہ الٹا ہر ویک اینڈ پہ میرے پاس مانچسٹر آتا اور سرسوں کے تیل سے میرے سر کی خوب مالش بھی کیا کرتا یہ ایک چھوٹے بھائی کی بڑے بھائی کے ساتھ محبت کی مثال تھی میں اسے بھولوں بھی تو کیسے ؟-

آپ بیتی سے اب جگ بیتی کی طرف آتے ہیں نواز شریف نے جب سیاست میں اپنا آپ منوا لیا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے برادر خورد شہباز شریف کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں لا کھڑا کیا وہ دن اور آج کا دن کہ نواز شریف نے اپنے بھائی کو جو اہمیت دی اس کی مثال شائید تاریخ میں کم ہی ملے گی چھوٹے بھائی کی سیاسی تربیت کرتے ہوئے بڑے بھائی نے ہر معاملے میں چھوٹے بھائی کی رائے کو فوقیت دی کئی بار سیاسی نقصان بھی اٹھایا مگر بھائی کے سر سے دست شفقت اٹھانے کو دل کبھی آمادہ نہ ہوا اپنی اولاد کو سیاسی معاملات سے باہر رکھا مگر بھائی کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو اپنی سیاسی سرپرستی میں ساتھ لے کر چلتے رہے حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تمام تر معاملات چھوٹے بھائی اور اس کے صاحبزادے کے سپرد کر دیئے بجا کہ دونوں نے اپنے سرپرست کو مایوس نہیں کیا مگر اندر خانے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش جاری رکھی-

حالات نے پلٹا اس وقت کھایا جب پاناما کا ہنگامہ شروع ہوا شہباز شریف جو چودھری نثار علی خان کی ہمراہی میں اکثر راتوں کو پرواز کر کے فیصلہ کن قوتوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے انہوں نے بھانپ لیا کہ نواز شریف کا فیصلہ ہو چکا ووٹ کو عزت ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تو شہباز نے پانی کے ارتعاش کو جانچنے کے لئے چودھری نثار کی صورت میں پہلا پتھر پھینکا فیصلہ کن قوتوں اور شہباز شریف کو توقع تھی کہ جماعت میں سے ایک بڑا گروپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر چودھری نثار علی خان سے آن ملے گا جس کے اشارے اس وقت راولپنڈی کے افلاطون شیخ رشید بھی دیتے رہے مگر مسلم لیگ ن کے عام کارکنان کی میاں صاحب آئی لو یو اور مریم نواز کے ساتھ والہانہ محبت نے اس سوچ کو پروان نہ چڑھنے دیا اور جو مسلم لیگی پرواز کے لئے پر تول رہے تھے وہ بھی دبک کر بیٹھ گئے یوں فیصلہ کن قوتوں کی شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان سے مایوسی کے باعث چودھری صاحب کو دو قومی اور ایک صوبائی نشست پر عبرت ناک شکست اور شہباز شریف کو پنجاب سے ہاتھ دھونے پڑے-

نواز شریف کے کندھوں پر بیٹھ کر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہونے والے شہباز شریف کو جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا لالی پاپ ہاتھ میں پکڑایا گیا تو انہوں نے ایک بار پھر خدمات بجا لانے کے لئے سر تسلیم خم کر لیا درویش کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی کوٹھی میں قائم کئے گئے مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل میں سے تاحیات قائد نواز شریف اور کارکنان کی آنکھوں کا تارا مریم نواز شریف کی تصاویر ہٹا کر شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی تصاویر آویزاں کر دی گئی ہیں اور حمزہ شہباز نے تین سو کے قریب سوشل میڈیا پر متحرک افراد کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو حمزہ اور اس کے والد موصوف کا سوشل میڈیا کے ذریعے امیج بہتر بنانے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں- بھائی اور بھتیجے کی اس تمام کارگزاری سے نہ صرف نواز شریف بلکہ مریم نواز بھی بہ خوبی آگاہ ہیں مگر اپنوں کے دئیے جانے والے دھوکے پر دل شکستہ اور چپ ہیں مگر کب تک ؟ –

اس تمام صورت حال پر جب میرے معتبر ذرائع کی مریم نواز شریف سے بات ہوئی تو انہوں نے انتہائی دکھی دل سے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے تاریکی میں سفر جاری ہے کہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ رہا ہے – جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیوں چپ سادھ رکھی ہے تو انہوں نےکہا کہ میرے الفاظ فیصلہ کن قوتوں کے سینے میں جا لگتے ہیں جس پر میرے والد کی پریشانیوں اور تکالیف میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے میں اپنی جنت تو کھو چکی ہوں اب جنت میں داخلے کا دروازہ اپنے اوپر بند نہیں کرنا چاہتی –

ایک بھائی کی محبت اور خدمت کی کہانی میں نے ابتدا میں آپ کو سنائی اور دوسرے کا قصہ اب اختتام پذیر ہو رہا ہے کہ شہباز اور حمزہ اس وقت جو کردار ادا کر رہے ہیں اس طرح کے کرداروں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے اقتدار کی غلام گردشوں نے بارہا ایسے مناظر دیکھے کہ بیٹوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے باپ کا سایہ سر سے جھٹک دیا اور بھائیوں نے اپنے بھائیوں کے سر تن سے جدا کر کے اپنے آپ کو بازوں سے محروم کر لیا اقتدار کے حصول کے لئے گاڑھے سرخ رنگ کا خون سفید ہوتے ہماری گناہ گار آنکھوں نے کئی بار دیکھا ہے اب ایک بار پھر شہباز بجائے پرواز کے پر کٹانے کو تیار ہو رہا ہے کہ خون کے سفید خلیے سرخ خلیوں پر حاوی ہو رہے ہیں…!

اپنا تبصرہ بھیجیں