باتوں باتوں میں… طارق بٹ…( علاج سے انکار، زندگی سے انکار )

سنا تو یہی تھا کہ جینے کی خواہش پانچ سال کے بچے اور سو سال کے بوڑھے میں ایک جتنی ہوتی ہے کہ دونوں میں سے مرنا کوئی بھی نہیں چاہتا زیست کے سفر میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں- کامیابی بڑھ کر انہی کے قدم چومتی ہے جو قدم اٹھاتے ہیں بہتا پانی ہی پاک اور مطہر ہوا کرتا ہے کھڑے پانی سے بدبو اور تعفن کے بھبکے اٹھا کرتے ہیں –
چار میڈیکل بورڈز کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے وہی نواز شریف جو دو بار صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی اور تین بار مملکت خدا داد پاکستان کے وزیر اعظم رہے وہی نواز شریف جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اپنی ریلی منسوخ کر کے فوری طور پر اسپتال پہنچ کر اپنی مخالفت جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کو اپنا کندھا پیش کیا کہ یہاں سر رکھ کر اپنا غم ہلکا کر لیں وہی نواز شریف جنہوں نے عمران خان کے الیکشن مہم کے دوران اسٹیج سے گرنے کے بعد اسپتال میں جا کر خان کی عیادت کی اور اپنی جماعت کی الیکشن مہم دو روز کے لئے معطل کردی وہی نواز شریف جو مشکل وقت میں اپنا ساتھ چھوڑ کر پرویز مشرف کے ساتھ مل جانے والے چودھری شجاعت حسین کی والدہ کی وفات پر ان کے گھر گئے اور انہیں دلاسا دیا –
وقت نے کروٹ بدلی اور نواز شریف عدالت کے کٹہرے سے ہوتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے سیاست دان کے لئے جیل کی کوٹھری کے دروازے اکثر و بیشتر کھلتے رہتے ہیں مگر اس بار حالات تکلیف دہ یوں تھے کہ نواز شریف کی شریک سفر کلثوم نواز مہلک بیماری کا شکار ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھیں اور انہیں اپنے سر پر تاج کی اشد ضرورت تھی عدالت سے اجازت نہ مل پائی نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ پیشیاں بھگتتے رہے بالآخر اڈیالہ جیل پہنچ گئے اور کلثوم نواز اپنے شریک سفر کو چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں اس دوران دو دوستوں کا کردار پوری دنیا نے دیکھا وہ دو دوست جو نہ صرف اکٹھے پڑھتے بلکہ کھیلتے بھی رہے میری مراد چودھری نثار علی خان اور عمران خان سے ہے کہ ایک طرف چودھری نثار علی خان نے لندن میں موجود ہونے کے باوجود اپنے دوست اور قائد نواز شریف کی بستر مرگ پر پڑی شریک حیات کی عیادت کے لئے جانے کی زحمت گوارا نہیں کی یوں وہ نہ صرف سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے سے محروم رہے بلکہ بیمار کی عیادت کے سبب ملنے والی ان ڈھیروں دعاوں سے بھی مستفید نہ ہو پائے جو انہیں ملنی تھیں دوسرے عمران خان جو ایک نامورکرکٹر کے طور پر بھی بین الاقوامی شناخت رکھتے ہیں اور سیاسی کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں کہ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں دکھی انسانیت کے علاج کے لئے کینسر اسپتال اور علم کی تلاش میں سرگرداں نوجوانوں کے لئے یونیورسٹی کا قیام ان کے وہ کارنامے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے مگر ساتھ ساتھ بھولا یہ بھی نہیں جائے گا کہ وہ وضع داری اور رواداری کی ان اچھی روایات سے قطعا واقف نہیں جو ہمارے معاشرے کی پہچان اور فخر ہیں اس لئے انہوں نے نواز شریف سے اظہار تعزیت کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا-
وضع داری تو رہی ایک طرف عمران خان نے تو فلاحی اور سماجی شخصیت کا خول بھی اتار کر پھینک دیا کہ خود ان کی اپنی پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ چار مختلف میڈیکل بورڈز نواز شریف کی بیماریوں اور علاج کے حوالے سے اپنی تجاویز دے چکے ہیں مگر انسانیت اور اخلاقیات تو رہیں ایک طرف عمران خان اور ان کی پنجاب حکومت قانونی تقاضے بھی پورے کرتے دکھائی نہیں دیئے کہ نواز شریف کی بیماری کو بھی انہوں نے سیاست کا کھیل بنا دیا اور ماضی قریب کے وزیر اعظم کی تضحیک اور اسے اذیت دینے کے لئے کبھی ایک اسپتال اور کبھی دوسرے کے درمیان لڑھکتا ہوا بال بنا دیا اس سے نہ صرف نواز شریف ذہنی اذیت کا شکار ہوئے بلکہ ان کی بیماری میں بھی شدت آ گئی مگر مختلف حکومتی وزراء کچوکے پر کچوکے لگانے میں مصروف رہے جس سے انہوں نے وہ کامیابی حاصل کر لی جس کے وہ متمنی تھے کہ اب نواز شریف اپنا علاج کروانے سے انکاری ہیں-
اس ساری صورت حال میں ان سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی شاندار رہا جو سیاسی اور انسانی وضع داری سے بہ خوبی آشنا ہیں خصوصا پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے قائدین نے حکومتی وزراء کی نواز شریف کی بیماری کے ساتھ کھلواڑ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا جس سے بالآخر حکومت بھی اپنا تضحیک آمیز رویہ بدلنے پر مجبور ہوئی اور نواز شریف کو ان کے من پسند اسپتال میں علاج کی پیش کش کر دی اس کے ساتھ ساتھ یہ پیش کش بھی موجود ہے کہ نواز شریف اگر چائیں تو باہر کے کسی ملک سے بھی ڈاکٹر بلوا سکتے ہیں دیر آیا درست آیا کے مصداق ان حکومتی اعلانات کو اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے مگر اب نواز شریف علاج سے انکاری ہیں آئے روز ان کی صاحبزادی اور برادر خورد شہباز شریف کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ نواز شریف کی بیماری شدت اختیار کرتی جا رہی ہے مگر وہ جیل سے باہر کسی بھی اسپتال میں علاج کے لئے تیار نہیں-

اب تو پنجاب حکومت نے کوٹ لکھ پت جیل میں ہیلتھ یونٹ قائم کر دیا ہے جہاں تین امراض قلب کے ڈاکٹر آٹھ آٹھ گھنٹے فرائض سر انجام دیں گے یہ احسن اقدام ہے نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ ضد چھوڑیں اور جس طرح اپنے مختلف مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کر رہے اسی طرح بہادری کے ساتھ اپنی بیماری کا بھی سامنا کریں کہ شفا من جانب اللہ ہے اور علاج سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب اگر حکومت انسانی اور قانونی تقاضے پورے کرنے پر تیار ہے تو نواز شریف کو بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے جلد از جلد حکومتی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے اسپتال منتقل ہو جانا چاہئے تاکہ علاج کا سلسلہ آغاز ہو سکے اور ان کی والدہ ، بھائی ، بیٹیاں، بیٹے اور کارکنان جس پریشانی اور ذہنی کرب سے دوچار ہیں اس سے انہیں نجات مل پائے اگر اب بھی انہوں نے اپنی ضد نہ چھوڑی تو عام عوام کو یہ کہنے کا حق حاصل ہو گا کہ نواز شریف نے اپنی بیماری پر سیاست کھیلی جو کسی طور بھی مناسب نہیں اگر یہ سیاست نہیں تو پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ نواز شریف ہمت ہار چکے ورنہ علاج سے انکار تو زندگی سے انکار ہے…!

اپنا تبصرہ بھیجیں