باتوں باتوں میں… طارق بٹ… اوپر اٹھتے عوام

… محترم عمران خان کو ان کے مخالفین یو ٹرن کے طعنے دیتے رہتے ہیں مگر وہ ان کو خاطر میں نہیں لاتے کہ یو ٹرن کے حوالے سے ان کا اپنا موقف بڑا مضبوط ہے ان کے مطابق جو یو ٹرن نہیں لیتا وہ بڑا لیڈر نہیں بن سکتا وہ مختلف لیڈروں کی مثالیں بھی دیتے رہتے ہیں جنہوں نے کئی بار اپنا موقف تبدیل کیا اس لئے وہ بھی اپنے دعووں اور وعدوں سے بار بار پھرتے رہتے ہیں مگر ایک بات جس پر وہ آج بھی قائم ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنا موقف کبھی تبدیل نہیں کیا وہ ہے ” میں نے اپنے عوام کو اوپر اٹھانا ہے ” –
اگر آپ عمران خان کے مستقل سامع ہیں تو اس درویش سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ ان کی کوئی بھی تقریر اس جملے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ویسے بھی اب تو عوام کو اپنے محترم وزیر اعظم کی تقریر ازبر ہو چکی ہے کہ گزشتہ تقریبا آٹھ سال سے ایک ہی تقریر سننے کو مل رہی ہے اس لئے اب اگر کسی موقع پر محترم کی تقریر سننے سے بندہ محروم بھی رہے جاتا ہے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ ایک دو نئے جملوں کے ساتھ باقی مواد وہی پرانا دہرایا جاتا ہے جو ہر پاکستانی کو پہلے ہی یاد ہے-
انہونی کو ہونی میں بدلنے کی قوت رکھنے والوں نے ادھر ادھر سے مختلف جماعتوں میں نقب لگا کر جو مال و متاع اکٹھا کیا اس کی بدولت عمران خان اس قابل ہو گئے کہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا سکیں خیبر پختون خوا پہلے ہی ان کے پاس تھا اس بار زیادہ اکثریت سے دوبارہ حکمرانی مل گئی باپ نے اپنے صاحبزادگان کو اکٹھا کر کے بلوچستان کی حکمرانی ان کے حوالے کر دی پیپلز پارٹی سندھ ملنے سے مطمئن ہو گی اور مسلم لیگ ن نے اپنے آپ کو اقتدار سے خود دور رکھا سو عمران خان کو یہ موقع مل گیا کہ وہ عوام کو اوپر اٹھا سکیں-
ابھی نئے وزیراعظم کی نئی نویلی حکومت گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ اپنے وزیر اعظم کی دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان نے عوام کو اوپر اٹھانے کے لئے ڈالر کو پر لگا دیئے وہ بھی بقول وزیر اعظم ان کو بتائے بغیر ، وزیر اعظم کو تب پتا چلا جب صبح ان کی آنکھ کھلی اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے عوام ڈالر کے ساتھ بلند پرواز میں مصروف ہیں عوام میں سے جن جن کو بتا دیا گیا تھا کہ ڈالر اوپر اٹھنے کو تیار ہے انہوں نے مارکیٹ سے ڈالر سمیٹ لئے تھے اور اب اس کی پرواز کے ساتھ خود بھی محو پرواز تھے یوں مرکزی بنک نے اپنے وزیر اعظم کا وعدہ پورا کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھا کر عوام میں سے کچھ خواص کو بلند پرواز بنا دیا-
حسد سے پیچ و تاب کھاتے دیگر محکمے کہاں پیچھے رہنے والے تھے عوام کو اوپر اٹھانے کے لئے دن رات منصوبہ بندی میں لگ گئے باہم مسابقت شروع ہو گئی مگر جیت وزارت پیٹرولیم کا مقدر ٹھہری کہ وہ ڈالر کے ساتھ اوپر اٹھتے عوام کو گیس کا جھٹکا لگا کر مزید بلند پرواز بنانے میں کامیاب ہو گئی دو دو تین تین ہزار کے معمولی بل وصول کرنے والوں نے جب بیس بیس پچیس پچیس ہزار روپے کے گیس بل وصول پائے تو ان کی پرواز قابل دید تھی مگر برا ہو چند احتجاجیوں کا کہ ان سے عوام کی یہ بلند پرواز برداشت نہ ہو سکی اور حکومت کو ان کی آواز پر کان دھرتے ہوئے زائد بھیجے گئے بل واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا یوں یکمشت زائد وصول کئے گئے بل آئیندہ ماہ سے قسط وار ہر مہینے کم ہوتے ہوئے عوام کی پرواز میں کمی کا سبب بنتے رہیں گے مگر زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ اس طرح پرواز میں جو کمی آئے گی وہ بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے پوری کی جاتی رہے گی بلکہ پرواز میں کمی کم اور اضافہ زیادہ ہو گا کہ محترم وزیر اعظم کے وعدے کے مطابق عوام کو اوپر جو اٹھانا ہے –
ہم عوام میں بھی تو حسد اور جلن بدرجہ اتم پائی جاتی ہے نا اپنوں میں سے چند کو اوپر اٹھتا دیکھ کر ہم سے برداشت نہ ہو پایا اور ہم میں سے بہت سارے بیمار ہو کر اسپتالوں میں جا لیٹے وزیر اعظم نے لٹانےکا وعدہ تو فرمایا نہیں تھا وعدہ تو عوام کو اوپر اٹھانے کا تھا چنانچہ وزارت صحت نے ادویات اور سرکاری اسپتالوں میں مختلف قسم کے ٹیسٹ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے حسد اور جلن کے باعث مکر کر کے اسپتالوں میں لیٹے مریض عوام کے اوپر اٹھانے کا بندوبست کر دیا ( اس اوپر کو بہت اوپر نہ سمجھا جائے ) وزارت صحت کی اس کارکردگی نے دیگر محکموں کو بھی مد ہوشی کی نیند سے اٹھا دیا بس پھر کیا تھا چل سو چل شروع ہو گئی اشیاء خورد و نوش کو ایسے پر لگے کہ عوام کے بنفس نفیس اڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے ہوش و حواس بھی اڑنے لگے خصوصا ٹماٹر نے اپنے آپ کو ڈالر سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ اڑ کر بلندی سے عوام کو لال لال آنکھیں دکھانا شروع کر دیں-

اس دوران ڈالر کی بلند پرواز کی بدولت بلندی پانے والوں نے سونے پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیئے اور سونا ایسا سمیٹا کہ بہت ساری غریب بچیوں کے نصیب سو گئے کہ اس جنس نے اپنے آپ کو عام عوام کی پہنچ سے اتنا دور کر لیا کہ بچیوں کی شادی کے سپنے بس سپنے بن کے رہ گئے مزید وزارتوں کی دیکھا دیکھی وزارت صنعت نے بھی عوام کو اوپر اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹورز پر موجود اشیاء خورد و نوش کو زائد قیمتوں کے ایسے انجیکشن لگائے کہ ان اشیاء تک پہچنے کے لئے عوام کو ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ہاتھ بلند کرنے پڑ رہے ہیں مگر یہ پھر بھی ہاتھ نہیں آ رہیں مگر اس طرح عوام ضرور اوپر اٹھ رہے ہیں اور وزیر اعظم کا وعدہ بھی پورا ہو رہا ہے –
ڈر اس وقت سے لگتا ہے جب مسلسل مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کی چیخوں میں شدت آ جائے گی کہ محترم وزیر خزانہ مزید چیخوں کی نوید سنا چکے ہیں جب عوام کی بجلی اور گیس کے بل بھرنے کی موجودہ سکت ختم ہو جائے گی جب وہ اپنے اور اپنے بیمار بچوں کے علاج سے قاصر ہو جائیں گے جب مہنگائی کے سبب ان کی شادی کی عمر کو پہنچنے والی بیٹیاں گھر بیٹھی رہ جائیں گی جب دعوے تو مسلسل عوام کو اوپر اٹھانے کے ہو رہے ہوں گے مگر دھکیلا انہیں پستی اور دلدل میں جا رہا ہو گا تو پھر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے میں کتنا وقت لگے گا درویش کو تو بہت ڈر لگتا ہے حکومت وقت کو بھی ڈر لگنا چاہیے کہ بقول ان کے وہ عوام کو اوپر اٹھا رہے ہیں اگر یہ اوپر کو اٹھے عوام دھڑام سے نیچے گرے تو اپنے بوجھ کے نیچے کہیں حکومت کو نہ دبا دیں …!

اپنا تبصرہ بھیجیں