باتوں باتوں میں… طارق بٹ… ابلیس کے بھی باپ

…جسم پر لرزہ طاری کر دینے والا مکروہ واقعہ اگر پنجاب ، سندھ ، خیبر پختون خواہ یا بلوچستان کے کسی دور افتادہ قصبے میں ظہور پذیر ہوا ہوتا تو شائید دل و دماغ میں اتنی شدید ہلچل نہ ہوتی مگر یہ قبیح فعل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام پر وجود میں آنے والی مملکت خدا داد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نہ جانے کتنا عرصہ سرزد ہوتا رہا اور ہمیں خبر تک نہ ہو پائی کہ ہم وزیر اعظم ہاوس کے باتھ روم کی خبروں کے پیچھے لگے رہے – خبر کے مطابق اسلام آباد پولیس نے سگی بہن سے زیادتی کرنے والے تین بھائیوں اسحاق ، جمیل اور اسماعیل کو گرفتار کر لیا جنہیں جوڈیشل مجسٹریٹ عامر خلیل نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تفصیلات کےمطابق والدین کے انتقال کے بعد اس سب سے چھوٹی بہن کے یہی تینوں بھائی سہارا تھے جو اپنی سگی بہن کو نہ صرف درندگی کا نشانہ بناتے رہے بلکہ خاموش رہنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے گرفتار ملزمان بھائیوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے-
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل پشاور سے ایک درندہ صفت باپ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جو اپنی سگی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا قصور کی معصوم زینب کے واقعہ کے منظر عام پر آنے سے پہلے اور بعد میں بھی ایسے لاتعداد واقعات اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر آتے رہے اور ایک تسلسل کے ساتھ آ رہے ہیں –
چند ایام کے لئے میڈیا اور اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر کسی نئے واقعہ کے ظہور پذیر ہونے تک ایک طویل خاموشی چھا جاتی ہے یہ خاموشی اس بے حسی کی چادر لئے ہوتی ہے جو ہم منہ چھپانے کے لئے اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں مگر نہ تو حکومت اور نہ ہی معاشرے کے بااثر افراد ایسے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی مناسب اقدام اٹھانا گوارا کرتے ہیں-
مخلوط ذریعہ تعلیم کی مخالفت میں کبھی کبھی دبی دبی سی آواز بلند ہوتی ہے مگر آزادی حقوق نسواں کی حامی نام نہاد تنظیموں کے بے باک جوابات اور تبصروں کے بعد یہ دبی دبی سی آوازیں مزید دب جاتی ہیں دو مختلف جسمانی ساخت اور مزاج رکھنے والے اجسام کو دو الگ الگ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے کہ نہ صرف جسمانی ساخت الگ بنائی گئی ہے بلکہ دونوں کے مزاج اور سوچ میں بھی نمایاں فرق رکھا گیا ہے ایک دوسرے کے لئے کشش سے بھی انکار ممکن نہیں پھر یوں کھلے عام انہیں اکٹھا کرنے سے برائی جنم نہیں لے گی اسے ہماری خوش فہمی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے-
غیروں کی تقلید میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اپنے ڈراموں میں ان معاشرتی اقدار کو سرے سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے جس سے ہماری نوجوان نسل کی تربیت ہوتی تھی آج آپ کسی بھی ٹیلی ویژن چینل پر کوئی بھی ڈرامہ دیکھ لیں یقین ہے کہ چند ہی لمحات کے بعد آپ چینل بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ڈائیلاگ یا مناظر آپ کو اپنی اولاد سے نظریں چھپانے پر مجبور کر دیں گے یا ہو سکتا ہے آپ اسے راقم کی دقیانوسی سوچ کہہ کر رد کر دیں اور اپنے آپ کو روشن خیال ظاہر کرنے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ایسے ڈرامے دیکھنا پسند فرمائیں مگر یہ یاد رکھیں کہ پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو مذکورہ بالا واقعہ میں نکل چکا-
زیادہ عرصہ نہیں بیتا کہ ہمارے گھروں میں یہ چلن تھا کہ نوجوان شادی شدہ جوڑے باقی گھر والوں کی موجودگی میں اکٹھے ایک چارپائی پر نہیں بیٹھا کرتے تھے نوجوان تو نوجوان درویش نے تو دادا دادی ، نانا نانی اور اپنے والد والدہ کو بھی ایک چارپائی پر اکٹھے بیٹھے نہیں دیکھا کیونکہ اس طریقہ نشست کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر آزاد میڈیا نے آزادی کے نام پر وہ کچھ دکھایا کہ آج میری بیٹی بیٹا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مارکیٹوں، فٹ پاتھوں اور باغات میں گھومتے پھرتے ہیں چچا زاد ماموں زاد اور خالہ زاد بھائیوں کا گھروں میں وقت بے وقت آنا جانا بھی محسوس نہیں کیا جاتا کہ رسومات دنیا نے ہمیں ایک دوسرے میں اتنا گم کر دیا کہ ہم اپنی تمام اچھی قدریں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں اتنا پیچھے کہ وہ اب ماضی کی داستانیں بن گئی ہیں-
مزید سے مزید تر کی ہوس نے ہمیں سب کچھ سمیٹنے کی طرف راغب کر دیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کی قدر اور احترام دن بہ دن ناپید ہوتا جا رہا ہے دادا یا باپ کی میت گھر میں موجود ہونے کے باوجود والد ، تایا ، چچا اور بھائیوں کو حصوں بخروں پر لڑتے جھگڑتے اکثر دیکھا جانے لگا ہے صرف مال و متاع کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو رہا ہے بھائی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف اپنی اولاد کے سامنے دل کی بڑھاس نکالتے ہوئے بھول بیٹھے ہیں کہ کل میری یہ اولاد اپنے چچا ماموں یا چچی ممانی کی عزت و احترام کسی صورت نہ کر پائیں گے کہ ہمارا پڑھایا ہوا سبق اور ہم سے مستعار لیا گیا رویہ گھٹی کی طرح ان کے مزاج کو ہمارا مزاج دیتا رہے گا ماں باپ دادا دادی اور ایسے ہی دیگر رشتوں کے ساتھ ہماری تو تکار ہماری اولاد کو ہماری تقلید پر مجبور کرتی ہے بڑے چاو سے بیاہ کر لائی جانے والی بہو ساری زندگی بہو ہی رہتی ہے لاکھ کوشش کے باوجود بیٹی نہیں بن پاتی –
بہن اور بھائی کے انتہائی میٹھے اور پیارے رشتے کو نظر انداز کرتے ہوئے مذکورہ تینوں بھائیوں نے جو شیطانی کھیل کھیلا اس کی مذمت اور اس پر شرمندگی کے لئے الفاظ کی شدید کمی کا اعتراف کرتا ہوں مگر اس انسانیت سوز واقعہ سے ایک بات تو بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ انسان کو جانور بننے میں صرف ایک پل لگتا ہے جب کہ جانور سے دوبارہ انسان بننے میں ایک طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بحثیت والدین اپنی اولاد کی تربیت اور ان کی حرکات و سکنات پر کڑی نگاہ بحثیت استاد اپنے طلباء و طالبات کی کردار سازی بحثیت عالم دین سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور معاملات زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ کے عمل کی تعلیم بحثیت معاشرہ اپنی ذمہ داریاں اور بحثیت حکمران معاشرتی ناہمواریوں اور بے راہ روی کے سدباب کے لئے عملی اقدامات کہ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں اگر ہم سب نے ان معاملات پر فوری توجہ نہ دی تو ابلیس تو اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا ہی ڈر تو اس بات کا ہے کہ اب تو ابلیس کے بھی باپ جنم لے رہے ہیں…!

اپنا تبصرہ بھیجیں