باتوں باتوں میں… طارق بٹ… میری باری کب ؟

… مہذب ممالک کا مہذب طریقہ کار ہے کہ کسی بھی جرم کی کھوج کے لئے کسی بھی شخص کو تفتیش کے لئے حراست میں تو ضرور لیا جاتا ہے مگر جب تک تحقیقاتی ایجنسیوں کو مکمل یقین نہ ہو جائے کہ حراست میں لیا جانے والا ہی اس جرم میں ملوث ہے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی آپ نے اکثر دیکھا اور سنا ہو گا کہ برطانیہ میں فلاں وقوعہ میں ملوث ایک 35 یا 40 سال کی عمر کے شخص کو انٹرویو کے لئے طلب کر لیا گیا ہے ذرا غور فرمائیے گا کہ تفتیش کے لئے بھی لفظ انٹرویو استعمال میں لایا جاتا ہے اور بلائے جانے والے شخص کا نام یا شناخت کسی بھی صورت میں ظاہر نہیں ہونے دی جاتی کہ دوران تفتیش اگر وہ شخص قصور وار ثابت نہ ہوا تب بھی بدنام تو ضرور ہو جائے گا –
ہمارے ہاں سلسلہ سراسر اس کے برعکس ہے گرفتاری بعد میں عمل میں آتی ہے مگر شخص کے نام اور تصویر کی تشہیر میڈیا کے ذریعے بہت پہلے شروع کر دی جاتی ہے کہ فلاں شخص کی گرفتاری کے لئے فلاں فلاں جگہ اور شہر میں چھاپے مارے جا رہے ہیں یا فلاں شخص کو فلاں ادارے نے فلاں کیس میں تحقیقات کے لئے فلاں تاریخ کو طلب کر لیا ہے اب اگر غلطی سے اس فلاں شخص کا تعلق سیاست سے ہے تو جب تک وہ شخص تحقیقاتی ایجینسی کے سامنے پیش نہیں ہو جاتا شتر بے مہار میڈیا پر اس کے بارے میں تبصرے کچھ اس انداز میں جاری رہتے ہیں جسے درست معنوں میں پگڑی اچھالنا ہی کہا جا سکتا ہے اگر تو ابتدائی تحقیقات میں ہی وہ شخص بے قصور ثابت ہو جاتا ہے تو میڈیا پر بھی یکدم سکوت طاری ہو جاتا ہے ورنہ آئے روز کسی نہ کسی نئے زاویے سے اسے نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے کیس طوالت پکڑ جائے اور دو یا تین سال بعد وہ شخص عدالت سے بھی بے گناہ ثابت ہو جائے تو اس وقت تک وہ اتنا بدنام ہو چکا ہوتا یے کہ باقی کی ساری زندگی صفائیاں پیش کرتے گذر جاتی ہے-
پولیس اور ایف آئی اے کی تو بات ہی کیا کرنی کہ یہاں تو احتساب کے سب سے بڑے ادارے نیب کا چلن تمام اداروں سے زیادہ قابل اعتراض اور قابل مذمت ہے اس بڑے ادارے کو سب سے پہلے اس کے خالق نواز شریف نے 1997 میں اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے اور کچلنے کے لئے استعمال کیا پھر 2002 میں پرویز مشرف کے دور میں اسے ایسے اختیارات تفویض کیئے گئے کہ الامان و الحفیظ – مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پیڑیاٹ کی تشکیل میں نیب نے اہم کردار ادا کیا اس دور میں شائید ہی کوئی سیاستدان بچ پایا ہو جس کی فائل تیار نہ کی گئی ہو پھر انہی فائلوں کے ذریعے وفاداریوں کی خریداری عمل میں لائی گئی –
جب سے نئے چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے چارج سنبھالا ہے خود نمائی اور تشہیری مہم میں کچھ زیادہ ہی تیزی دکھائی دینے لگی ہے ابتداء پنجاب کے بیورو کریٹ احد چیمہ کی گرفتاری سے ہوئی کہ گرفتاری کے فوری بعد نیب لاہور کے تفتیشی مرکز میں سلاخوں کے پیچھے موجود احد چیمہ کی خوف زدہ آنکھیں سلاخوں کے باہر موجود وردی میں ملبوس گن مین کی وجہ سے پھٹی پھٹی دکھائی دے رہیں تھیں ابھی تحقیقات کی ابتداء تھی کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا تھا مگر احد چیمہ کو زندگی بھر کے لئے نظریں جھکائے رکھنے پر مجبور کر دیا گیا سال ہونے کو ہے افواہیں پھیلائی جاتی رہیں کہ احد چیمہ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہو گیا مگر تاحال سامنے کچھ بھی نہ آ سکا پھر یہی طریقہ نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے سلسلے میں اختیار کیا گیا پچیس تیس سال ملک کے اعلی ترین عہدوں پر خدمات سر انجام دینے والوں کی ایسی حالت زار دیکھ کر موجودہ بیوروکریسی نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کو اپنے لئے بہتر جانا کہ تنخواہ تو مل ہی رہی ہے کام کرو گے تو کل رگڑا لگے گا اس لئے کام کیئے بغیر تنخواہ وصول کرتے رہو بلکہ کئی اہم پوسٹوں پر تعینات بیوروکریٹس نے اپنے تبادلے غیر اہم سیٹوں پر کروا لئے تاکہ کل کی پکڑ سے بچ سکیں- صرف بیوروکریسی ہی نہیں قوم کی معمار بھی نشانہ بنے ایک پروفیسر تو مرنے کے بعد بھی ہتھکڑیوں سے نجات نہ پا سکے برگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر اپنی عزت بچاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے-
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ سابقہ اور موجودہ حکومت میں شامل سیاستدان بھی نیب کا نشانہ بن رہے ہیں گرفتاریوں اور تشہیر تک تو معاملات خوب پھل پھول رہے ہیں پر بات جب عدالتوں میں الزام ثابت کرنے پہ آتی ہے تو نیب کی جانب سے ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتی ہے مگر اعلی ترین عدلیہ کی جانب سے بھی نیب کی سرزنش اور اسے مردہ ادارہ کہنے کے علاوہ عملی طور پر کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آتا دوسری جانب موجودہ حکومت بھی نیب قوانین میں ترمیمات کی باتیں تو کرتی ہے مگر عمل میں سابقہ حکومتوں کی پیش رو ثابت ہو رہی ہے کہ آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود فی الحال عملی طور پر کوئی اقدام نہ اٹھایا جا سکا- پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا کہ اس ادارے کو ختم کر کے ایک نیا احتساب کمشن بنایا جائے گا مگر اپنے اپنے دور اقتدار میں دونوں جماعتوں نے اس جانب قطعا توجہ نہ دی جس کا آج انہیں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے-

اس تمام صورت حال میں اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ نیب گرفتاری پہلے عمل میں لاتی ہے اور جرم بعد میں تلاش کیا جاتا ہے شہباز شریف کے علاوہ دیگر مثالیں بھی موجود ہیں کہ گرفتاری صاف پانی کیس میں ہوئی اور بعد میں الزام آشیانہ ہاوسنگ اسکیم کا لگا دیا گیا وہ بھی بعد میں ثابت نہ کیا جا سکا تو آسان طریقہ اپنا لیا گیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں پر ریفرنس دائر کیا جائے گا جہاں تک تعلق ہے آمدن سے زائد اثاثوں کا تو اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی تقریبا 22 کروڑ آبادی میں سے 20 کروڑ سے زائد تو اس کی زد میں آ ہی جائیں گے اس ضمن میں اگر یہ درویش خود اپنی بات کرے تو جو ظاہری آمدن ناچیز کی ہے اس پر نہ تو موجودہ رہائش پوری اترتی ہے اور نہ ہی رکھ رکھاو کہ ان تمام سہولیات کے پیچھے درویش کے چھوٹے بھائی کی محبت کھڑی ہے جو ہر مشکل وقت میں اپنے پروں کے نیچے چھپانے کو تیار رہتی ہے مگر یہ بات بھی طے ہے کہ جس رفتار سے نیب آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس بنانے پر تلا بیٹھا ہے آج نہیں تو کل اس درویش کی باری بھی آنے والی ہے…!

اپنا تبصرہ بھیجیں