تراویح تحریر محمد اظہر حفیظ


تراویح
تحریر محمد اظہر حفیظ
مجھے یاد پڑتا ھے بہت ھی چھوٹے تھے پہلی یا، دوسری کلاس ھوگی گھر کی چھت پر گاؤں میں کچھ جائے نماز بچھا کر طارق بھائی سب کزنز کو نماز تراویح پڑھا رھے تھے جب سجدے میں گئے تو، میں نے ریت اٹھا کر سب کے سر میں ڈال دی بھائی اٹھا میری اچھی طرح طبعیت صاف کی میں روتا، ھوا نیچے اگیا اور بھائی نے سجدے سے ھی دوبارہ جاکر نماز شروع کروا دی، امی جی اظہر، میرے لال کی ھویا امی جی بھائی نے مارا ھے امی نے آواز دی طارق تھلے آ، بھائی نیچے آگیا جی امی کیوں ماریا اسنو، امی جی میں تراویح پڑھا، رھا، تھا جب سجدے میں گئے اس، نے سب کے سروں میں ریت ڈال دی مارتا، نہ تو، اور کیا کرتا یہ پہلی یاداشت تھی تراویح کے ساتھ، اور پھر تراویح زندگی میں آگئی گاؤں کی مسجد، میں ابو جی ساتھ تراویح پڑھنے جاتے اورپھرچھٹی کلاس میں راولپنڈی آگئے اور جامعہ مسجد محمدیہ نیو کٹاریاں میں تراویح پڑھنے جاتے، پروفیسر افتخار، بھٹہ صاحب کی زیر نگرانی تراویح ادا کرتے، بہت ھی شاندار انتظام ھوتا، تھا، پھر، واپسی پر سلیم پان شاپ سے سیون اپ سوڈا، پینا اور گھر آنا زندگی گزرتی رھی اورمیڑک کے بعد، ھم اسلام آباد شفٹ ھوگئے اپنے گھر اور چچا میاں مظہر الحق کے ساتھ محکمہ آباد کی مسجد جو کہ راولپنڈی میں داتا گنج بخش روڈ، پر واقع تھی جاتے جہاں مولانا اشرف تھانوی صاحب کے غالباً پوتے تراویح پڑھاتے بہت ھی شاندار، قرات فرماتے کچھ سال وھاں جاتے رھے اور پھر، میں این سی اے چلا گیا، نماز سے اور تراویح سے دوری ھونا شروع ھوگئی واپس آکر امی جی کہتی رھتی بیٹے نماز پڑھا کر جی امی جی اور ٹال دیتا، اکثر کہتی مجھے تیرے سے ایک دکھ ھے تو نماز قائم نہیں کرتے ماں جی دعا کریں کبھی دو دن یا پانچ، دن تراویح ادا کی اور غائب، پھر گھر پڑھتا اور چھوڑ دیتا، پھر اعتکاف پر بیٹھنا شروع کر دیا 1996 میں غالباً پہلی دفعہ اعتکاف پربیٹھا، بالکل ھی نیا تجربہ تھا رات کو بہت عرصے بعد، نماز تراویح با جماعت ادا کی کبھی اس طرح دنیا داری سے کٹ کر نہیں بیٹھے تھے پیسے پاس نہیں تھے خالی جیب خالی دماغ قرآن مجید لیا اور جا کر بیٹھ گیا طارق بھائی سحری اور افطاری لیکر باقاعدگی سے آتے ان کا شکریہ زندگی میں انکی ھمیشہ سے ھی سپورٹ ھے، پہلے دن سولہ سپارے ایک نشت میں پڑھ گیا پتہ چلا قرآن مجید تین دن سے کم میں نہیں پڑھتے اسکا ترجمہ پڑھنا شروع، کیا اور قرآن کو سمجھنا شروع کر دیا نمازیں تھیں اور قران تھا مجھے نہیں پتہ تھا کون کیسے نماز، پڑھ رھا تھا میں کچھ کتابوں کو سمجھ کر پڑھ رھا تھا ایک کتاب تھی صلوۃالرسول اس کو پڑھا اور سمجھا اور اسکے مطابق نماز ادا کرنے لگا بلکل صاف نیت اور صاف دل مجھے نہیں پتہ تھا ساتھ والا کیسے پڑھتا ھے یا اگلہ صف والا کیسے پڑھتا ھے میں یکسوئی سے نماز ادا کرتا اور اپنی مفلسی میں بہت خوش تھا، چل واپسی ھوگئی، دین کی طرف لیکن یہ کیا تیسرا دن تھا اعتکاف پر دن کو بیٹھا قرآن پڑھ رھا تھا ایک کاغذ پردے کے اوپر سے اکر گرا کوئی نفرت انگیز والا کاغذ تھا سارا پڑا کچھ پلے نہیں پڑا لکھا تھا وھابی اور شعیہ کافر ھیں سوچا پتہ نہیں کیا معاملہ ھے میرے حجرے میں کیوں پھینک کر گئے ھیں، مولوی صاحب باھر سے گزرے انھیں بلایا حضرت بات سنیں جی بتائیں یہ کاغذ کوئی دوست پھینک گیا ھے اب سمجھ. نہیں آرھی میں کون ھوں وھابی شیعہ یا کافر میری مدد کریں میں پریشان ھوں جناب آپ رفع یدین کرتے ھیں اس لیے آپ وھابی ھیں نہیں جناب میں سنت کے مطابق ادا، کرتا ھوں حدیث کے مطابق پر میرا کوئی فرقہ نہیں ھے ابھی ابھی تازہ تازہ اسلام میں واپس، آیا ھوں مجھے کوئی لقب یا الزام نہ دیں لیکن میں مسجد، میں بیٹھ، کر بھی کافر ھی تھا اتے جاتے آواز آتی کافر اوئے، میں اپنا، دکھ کسی کو نہیں بتا سکتا تھا رب کے آگے رو دیا، باقی اعتکاف کے ساتھی بھی مجھے کچھ خاص پسند، نہیں کرتے تھے، اور اعتکاف کے بعد میں مسجد، جانا بالکل ھی چھوڑ گیا امی کہتی بابو نماز کے لیے جاؤ امی مجھے لوگ کافر کہتے ھیں کیا کروں اگلا اعتکاف اگیا چچا مظہر یار تم تو ماشاء اللہ اہحلدیث ھوگئے ھو اس دفعہ ھماری مسجد، میں اعتکاف بیٹھو جی اچھا مسجد گھر سے، دور تھی طارق، بھائی وقت پر سحری اور افطاری لیکر آتے عجیب ماحول تھا موبائل کی بیل بج رھی ھے جناب دنیا چھوڑ دیں اللہ کی طرف آئیں جی حافظ صاحب سے اجازت لی ھوئی ھے اپ اپنے کام سے کام رکھیں جی اچھا، رات کو ان صاحب کا چھوٹا بیٹا بھی سونے اگیا یہ کیا، ھے جی میرے بغیر سوتا نہیں ھے حافظ صاحب سے اجازت، لی ھوئی ھے اس لیے رات کو اجایا کرے گا مجھے حافظ، صاحب کے اختیار پسند نہیں آئے لیکن قاری صاحب تلاوت بہت شاندار کرتے تھے اور درمیان میں وقفہ کر کے چائے اور انڈے سے تواضع بھی کی جاتی تھی، اب مجھے اندازہ ھوا میں صرف مسلمان ھوں میرا کوئی فرقہ نہیں اور ان سب کی نظر، میں کافر ھوں اگلے سال پھر اپنے محلے کی مسجد، میں اعتکاف کیا لیکن اس دفعہ مخالفت کی شدت کم تھی اور میں نارمل زندگی میں آگیا اس سال رمضان کچھ مختلف، تھا بیوی کہنے لگی میری ایک بات مانیں گے جی بتائیں کیا لینا ھے جی لینا کچھ نہیں یار امی کہتی کہتی فوت ھوگئیں کہ نماز پڑھا کرو آپ اس رمضان سے نمازیں پڑھنا شروع کرو اور تراویح سب کی سب مسجد، میں پڑھنی ھے امی جی بہت خوش ھوں گی جی اچھا بات کچھ دل کو لگی اور الحمدللہ بہت ھی سالوں بعد تراویح باجماعت جاری ھیں امید ھے نماز قائم ھو جائے گی انشاء اللہ میرے لیے دعا کیجئے گا اور میرے ماں باپ کے لیے بھی امید ھے وہ اب مجھ سے خوش ھونگے، مسجد اھلسنت کی ھے شروع کے دنوں میں محسوس کیا کچھ لوگ میرے رفع یدین کرنے سے تنگ ھورھے ھیں ان کی تکلیف کو مدنظر رکھتے ھوے اب نماز میں رفع یدین نہیں کرتا کیونکہ میں نہیں چاھتا کسی کی میری وجہ سے دل آزاری ھو، کیونکہ میں نے سنا تھا جب امام صاحباں ایک دوسرے کی طرف جاتے تو انکے مطابق نماز ادا کرتے تو مجھے کیا حرج ھے باقی اللہ دلوں کے حال بہتر جانتے ھیں، اور بہتر اجر دینے والے ھیں ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ سنت اور حدیث میں فرق کیسے کرتے ھیں میرا تو دونوں پر یقین ھے اور عمل ھے الحمدلله

اپنا تبصرہ بھیجیں