تبلیغی جماعت میں اختلاف اور اسکاحل – مفتی محمد اسماعیل طورو

بنگلہ دیش کے اجتماع میں خرابی حالات کے بعد یہ تحریر نظرقارئین ہے۔پاک رب اس تحریر کو خیر کا ذریعہ بنائے۔آمین
پہلی بات یہ ہےکہ پاک نبی پاک کے زمانے میں صحابہ میں اختلاف ہوا ہے۔تو آج اگر ہوجائے تو پریشان نہ ھوں بلکہ دعااوحل میں لگ جاو۔
نبی کریم علیہ السلام پرصحابہ کے اختلاف کے بعد قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوتی ہے
*ولا تفرقوا* آیت 103 سورہ 3
اوراھل علم خوب جانتے ہیں۔کہ علمی اعتبار سے اصول میں اختلاف سے فرقہ بنتا ہے لیکن یہاں پر
تعصبی اختلاف کو فرقہ واریت سے تعبیر کیاگیااللہ اکبر
تو میرا مشورہ یہ ہے۔کہ یا تو مولانا سعدصاحب *حفظہ اللہ* اس امارت سے دستبرارہوجائیں تو لڑائی ختم ہوجائیگی۔اور امت پر رحم کرے۔ اسلئے کہ یہ امارت حضرت عثمان رضی اللہ کی خلافت نہیں ہے کہ بلوائی منافقین آئے ہیں۔اور مولانا سعد صاحب سے خلافت کی قبا اتار رہے ہیں۔اسلئیے کہ یہ امارت امارت مستحبہ ہے۔ نہ یہ خلافت شرعیہ واجبہ کی امارت ہے۔ اور نہ مجاھدین قتال کی امارت ہے۔ نہ ہی مولانا سعدصاحب کے پاس کوئی سلطنت اسلامیہ کی چابی ہے۔ نہ ہی منعہ ہے نہ ہی جیل ہےنہ ہی طاقت نہ ہی اسلحہ ہے۔یہ چیزیں شرعی خلافت کی بنیادیں ہیں۔اور موجودہ اختلاف کودیکھ کر میں نے اس مسئلےکوسمجھنے اورحل کے لیئے انڈیا پاک بنگلہ برطانیہ کےمختلف علماء کرام *زادھم اللہ شرفا وتکریماوحفظھم من الشرور والفتن ماظھر منھا ومابطن* جنکے نام لینے کی ضرورت نہیں کے بیانات سنے تو اس میں مجھےدو صراحتی علمی عملی غلطی نظر آئی۔

پہلی *عملی غلطی* یہ ہے کہ ان کے بیانات میں زبردست تشدد ہے۔ جیسا کہ برما کشمیراورافغانستان کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئیے جارہے ہیں اور کافروں کے خلاف شدید بھپرے ہوئے خونخوار شیر ببر ہیں۔
اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو.عوام کو تباہ نہ کرو لڑائی پر مت اکساو کل اللہ پاک کو کیا جواب دوگے۔تبلیغ کاتو خاصا ہی نرمی پیار محبت ہے جوڑ پیدا کرو توڑ سے بچو۔
*ہم رب کے ہیں رب ھمارے ہم سب کے ہیں سب ھمارے*
کانعرہ مستانہ آپ ہی نے بلند کردیاتھا۔ اورآج آپس میں لڑ بھڑ گئیے۔ پوری دنیا کے نیوٹل علما اور دیندارعوام خون کے آنسو رو رہے ہیں۔کہ
*یااللہ یہی ایک جماعت ہی تو عالمی آس تھی۔ یئاس میں تبدیل نہ ہوجائے*

دوسری *علمی غلطی*
وھی ہے جسکا شروع میں میں نے تذکرہ کیا کہ انھوں نے اسکو اسلامی خلافت کا مسئلہ بنادیا ہے۔اور وھی دلائیل دئیے جارہے ہیں۔کہ موت تک امیر ھوتا ہے۔ اور سارے کے سارے حوالے شرعی خلافت سے لے رہے ہیں۔اس مسئلہ کی تحقیق کے لیئے بھترین
*کتاب الامامہ العظمی* ہے دیکھ لو۔
باقی بھائی ھمارے کام کو دیکھو یہ تو مکی زندگی کیطرح مارکھانے والا عاجزی تذکیری نصیحتی محبتی کام ہے۔
لہذا مولاناسعد صاحب*حفظہ اللہ الصمد من شر حاسد اذا حسد*دستبردار ہوجائیں۔اوریا شوری سعد صاحب کوامیر مان لے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دیوبند کے دارالافتاء نے مولانا سعد کو جس کا پابند کیا ہے اسپر وہ ضرور بضرور عمل کرے۔اور یہ حل بھی سب سے بھترین ہے کہ دو طرفہ اختلاف کرنے والے فریق دس دس معتمد اتفاقی افراد کو اپنے فیصلے کا اختیاردےدیں۔تو وہ بیس افراد جوفیصلہ اکثریت سے کریں۔ اسکو بسرچشم سرتسلیم خم مان لیا جائے۔*اتبعوا السواد الاعظم*کی حدیث پر عمل کر کر۔۔۔۔۔
اگر ایں مشورہ قبول است*فبھاذا حصل المراد ونعمت المسئلہ*ورنہ
*نہ گلہ کرتے ہیں نہ شکوہ کرتے ہیں*
*آپ لوگ سلامت رہیں ہم دعاء کرتے ہیں*
والسلام
00923114440006
نوٹ
تبلیغی عوام کام میں لگے رہیں ان اختلافات کا تذکرہ بھی نہ کریں بس دعاء اور تبلیغ مے کام میں لگے رہے ہیں۔اسی میں آپ اور دین کا فائیدہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں