سوشل میڈیا تحریر محمد اظہر حفیظ

جو آپ سمجھتے ھیں وھی سچ ھے شاید یہ ھی اصول ھے سوشل میڈیا کا۔ سنا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے اسی اصول پر بے شمار لوگ کار فرما ھیں جھوٹی خبریں تو قابل برداشت تھی ھی اب جو جھوٹی حدیثوں کا سلسلہ چل نکلا ھے اس کا کیا کیجئے سب سے پہلے رمضان کی مبارکباد اور بخشش کی ضمانت سب سے پہلے شعبان کی مبارکباد اوربخشش کی ضمانت نعوذ باللہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کب ایسا کہا اگر کسی کی تصیح کر دیں یا ریفرنس مانگ لیں تو پیچھے سے ھی ایسے آیا ھے کی دلیل دی جاتی ھے، ھر کوئی اس جستجو میں ھے کسی کی ماں بہن بیٹی بیوی کی خبر ملے اور اس کو عام کیا جائے خبر کی تصدیق کی بھی کوئی زحمت نہیں کرتا۔
کہ آیا یہ خبر سچ ھے یا جھوٹ۔ اللہ ھم سب کو ھدایت دیں امین۔
پچھلے کچھ سالوں میں بہت سارے قول سامنے آئے جن کا پہلے کبھی ذکر بھی نہیں سنا۔
ھمارے دوست ارشد چوھدری صاحب کہتے تھے کہ ھمارے گاوں میں ایک دودھ کا کاروبار کرنے والا شخص ھے اس کے پاس بہت سی بھینسیں ھیں وہ دودھ کا رنگ دیکھ کر بتا دیتا ھے کہ یہ کونسے رنگ کی بھینس کا ھے وہ بوری ھے یا کالی ھے اب یہ سلسلہ ایسے آرٹسٹوں پر آ ختم ھوا ھے جو واٹس ایپ دیکھ کر بتا دیتے ھیں یہ کہاں کہاں بھیجا گیا ھے عجیب کھوجی آرٹسٹ ھیں۔
مجھے یاد ھے ایک دفعہ او پی ایف کالج میں کلاس پڑھا رھا تھا ایک بچی نے بلند آواز میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ میرے تو ھاتھ پاوں پھول گئے بیٹا کیا ھوا وہ بس روئی جائے ساری کلاس نے پوچھا اور وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں پروگرام کوآرڈینیٹر کو بلایا انھوں نے بہت پوچھا سر نے کچھ کہا ھے تو گویا ھوئیں والد صاحب کا امریکہ میں دل کا آپریشن ھو رھا ھے انکی یاد آگئی تھی تو بیٹا چھٹی کر لینی تھی کیوں آئیں اور اس سارے ڈرامے کا کیا مقصد تھا کیا ٹیچر کو بھی ھارٹ اٹیک کروانا تھا بس ویسے ھی ذھن میں آگیا۔ وہ دن اور آج کا دن ڈر سا گیا ھوں خواتین سے کب کیا ھو اور رونا دھونا شروع کردیں بغیر وجہ بتائے۔
سوشل میڈیا بھی اسی طرح کا ایک میدان ھے جہاں جو جی چاھے لکھ دیں۔ لوگ بغیر تصدیق یقین کرنا شروع کر دیتے ھیں۔سب تصاویر،پینٹنگ،تحریروں،اشعار کی تعریف کیجئے ورنہ اپنی عزت آپ کے ھاتھ میں ھے ھر کوئی اصلاح کیلئے پوسٹ کرتا ھے میری راھنمائی کیجئے دراصل وہ آپ سے تعریف کا کہہ رھا ھوتا ھے خدانخواستہ اگر آپ نے اس کی راھنمائی کی کوشش کر دی تو پھر بلاک کرنے کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ اس سوشل میڈیا پر نہیں اور اگر پوسٹ کرنے والی خاتون ھے تو پھر انتظار کیجئے ان سب افلاطونوں کا جو اپ کی زندگی عذاب کرنے کو تیار بیٹھے ھیں
مجھے یاد ھے 1990 میں نیشنل کالج آف آرٹس لاھور کا طالب علم تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد آیا سر غلام رسول صاحب کی پینٹنگ کی نمائش تھی بے دلی سے دیکھی کچھ سمجھ نہ آیا چپ چاپ باھر نکل آیا لاھور گیا تو سر سید اختر صاحب ھاں جی کیا کیا چھٹیوں میں میں نے ھاتھ کھڑا کیا سر نمائش دیکھی سر غلام رسول صاحب کی ۔ اچھا کیسی لگی۔ سر جی کچھ سمجھ نہیں آئی ۔ کتنی عمر ھے تمھاری سر 20 سال اور انکی سر کوئی پچاس ساٹھ سال۔ جب ان جتنے ھوجاو گے سمجھ بھی لگ جائے گی۔ ابھی اتنا علم نہیں ھے تمھارے پاس کہ انکے کام کو سمجھ سکو۔ بات سمجھ آگئی اور چپ بھی لگ گئی اب وقت آگیا ھے جو جس کی چاھے عزت اچھال دے کام سمجھ آئے یا نہ آئے۔ سوشل میڈیا نے سب کو سب اجازت دے دی ھے۔ اس لیے احتیاط کیجئے۔ کچھ لکھنے سے پہلے اور کسی کی بھی فرینڈ ریکوسٹ منظور کرنے سے پہلے۔ ناجانے کونسا بے عزتی کا ماونٹ ایورسٹ آپکا انتظار کر رھا ھے۔ اور کونسی تہمت آپ پر لگا دی جائے ۔ وہ ھراسمنٹ کی ھو یا کوئی اور۔
احتیاط ھی آپ کو بچا سکتی ھے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ھوں کہ پتہ نہیں اللہ تعالی کے سوشل میڈیا اکاونٹس ھیں بھی کہ نہیں جو اتنے لوگ دعا اور بدعا سوشل میڈیا پر دیتے ھیں انکا کیا بنے گا کیا اتنی دعائیں اور بدعائیں ضائع تو نہیں چلی جائیں گی۔ میں عمرے پر جارھا ھوں جس جس نے سپیشل دعا کروانی ھے انباکس میں رابطہ کرے۔ یہ جملہ عام سا ھوگیا ھے عمرہ زائرین کا پہلے کہتے تھے عمرہ پر جا رھا ھوں دعا کیجئے گا اللہ قبول کر لیں اور ھم بھی سلام کی درخواست پیش کرتے تھے ھمارا بھی سلام پیش کیجئے گا۔۔ ابھی فون اور ویڈیو کال آتی ھے اپنی دعا خود کر لیں یہ کیسا رب ھے جس کو میری دعا پاکستان میں سنائی نہیں دیتی اور مکہ مدینہ میں ٹیلی فون پر دعائیں سنتا ھے میرا رب کریم تو ھر جگہ موجود ھے ۔ ھر جگہ دعائیں سنتا ھے یہ کیسے مذھبی ڈرامے ھیں رنگ بازیاں ھیں۔ خانہ کعبہ میں سیلفیاں روضہ رسول پر سیلفیاں پیروں فقیروں کی طرف تو احترام سے پیٹھ نہیں کرتے اور خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تو احترام کرو۔ اگر ھر انسان کی عبادت اسی کے کام آنی ھے تو پھر سوشل میڈیا پر عبادت سمجھ سے بالاتر۔ نواز شریف صاحب حرم میں قرآن مجید پڑھتے ھوئے،آصف زرداری صاحب عمرہ کرتے ھوئے، عمران خان صاحب ننگے پاوں سعودیہ جاتے ھوئے یہ سب رنگ بازیاں کس لیے۔
سوشل میڈیا ایک ایسے دیو کی شکل اختیار کرچکا ھے جو کسی کو کسی بھی روپ میں پیش کر سکتا ھے احتیاط کیجئے ۔ احترام کیجئے۔ جو آج آپ کر رھے ھیں کل کوئی دوسرا بھی وھی ھتھیار آپ کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ھے کیونکہ سنا ھے یہ دنیا مکافات عمل ھے ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اللہ تعالی سب کی عزتیں شرمیں محفوظ رکھیں امین ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں