امریکی صدر ٹرمپ پسپا ہونے پر مجبور، ملک میں ’شٹ ڈاؤن‘ 15 فروری تک ختم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں بڑھتے ہوئے بحران اور ڈیموکریٹس کی جانب سے سخت دباؤ کی مزید تاب نہ لا تے ہوئے امریکی تاریخ کے طویل ترین ‘شٹ ڈاؤن’ کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔

35 دن تک جاری رہنے والے شٹ ڈاؤن کے بعد صدر ٹرمپ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین ہفتے تک کے لیے سرکاری محکموں اور اداروں کی فنڈنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رہے ہیں لیکن اس میں صدر ٹرمپ کی خواہشات کے برعکس امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کے قیام کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ شٹ ڈاؤن کی مرکزی وجہ اسی دیوار کے لیے فنڈنگ کا حصول ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ صرف اور صرف اُسی صورت میں بجٹ کی منظوری دیں گے جب اُس میں دیوار کی تعمیر کے لیے 5.7 ارب ڈالر کی رقم مختص کی جائے۔

لیکن صدر ٹرمپ کے مطالبے پر حریف جماعت ڈیموکریٹس ڈٹ گئے رقم مختص کرنے سے انکار کر دیا۔

شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد ایوان کے دونوں حصوں میں بل منظور کر لیا گیا جس کی مدد سے شٹ ڈاؤن کم از کم 15 فروری تک کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس اعلان پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور انھوں نے ساتھ میں سرکاری ملازمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں ‘زبردست محب وطن’ قرار دیا اور کہا کہ انھیں تمام تنخواہ پوری ملے گی۔

لیکن اس تقریر میں صدر ٹرمپ نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ ابھی کے لیے ‘بہت طاقتور متبادل راستہ’ اختیار نہیں کر رہے جو ان کے پاس موجود ہے، یعنی ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان۔

اگر امریکہ میں ایمرجنسی نافذ ہو جاتی ہے تو اس کی مدد سے صدر ٹرمپ ملک کی افواج کو دیے جانے والی رقم کے کچھ حصے دیوار کی تعمیر میں مختص کر سکتے ہیں البتہ ایسا کرنے میں قانونی رکاوٹیں ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ماسوائے دیوار بنانے کے اور اگر انھیں دیوار بنانے کے لیے کانگریس سے مطلوبہ مدد نہ مل سکی تو اس صورت میں دوبارہ شٹ ڈاؤن ہو جائے گا یا میں وہ راستہ اختیار کروں گا جو اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے آئین اور قانون نے مجھے دیا ہے۔’

خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ صدر ٹرمپ شٹ ڈاؤن ختم کرنے پر اس لیے راضی ہوئے کیونکہ اس کی وجہ سے ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا۔
شٹ ڈاؤن کے بعد سے یہ دیکھا گیا کہ امریکیوں کی بڑی تعداد صدر ٹرمپ کو ہی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا اور 35 دنوں کے بعد صدر نے وہی راستہ اپنایا جو ہاؤس کی سپیکر اور ڈیموکریٹ پارٹی کی سینئیر رہنما نینسی پیلوسی نے تجویز کیا تھا۔

اور شٹ ڈاؤن کے خاتمے کو سپیکر کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے ان کی کھل کے تعریف کی جس کی تائید چند ریپبلیکن پارٹی کے نمائندوں نے بھی کی۔

شٹ ڈاؤن کے کیا اثرات تھے؟
پانچ ہفتے تک جاری رہنے والے شٹ ڈاؤن سے ملک بھر میں آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین متاثر تھے اور انھیں نہ کام کرنے کے لیے رقم مل رہی تھی اور نہ ہی تنخواہیں۔

جمعے کو امریکہ میں پروازوں کا نظام سخت متاثر ہوا کیونکہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ائیر ٹریفک کنٹرولر اہلکاروں نے چھٹیاں لے لیں۔
اس کے علاوہ انٹرنل ریوینیو سروس محکمے کے ہزاروں اہلکاروں نے بھی کام سے چھٹی لے لی حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ کام پر واپس آئیں۔

اس کے علاوہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے اپنے ایجنٹس کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ‘میں بہت طویل عرصے بعد اس قدر غصے میں ہوں۔’

ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب خبروں کے مطابق ایف بی آئی کے وسائل تقریباً ختم ہونے کو ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں