پاکستانی چینلز پر بھارتی پروگرام اور فلمیں دکھانے پر پھر پابندی

کراچی —
پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے مقامی ٹی وی چینلز پر ایک مرتبہ پھر بھارتی پروگرام اور فلمیں دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پابندی کی خبر آتے ہی گلشن اقبال، گلستان جوہر سمیت بیشتر علاقوں کے کیبل آپریٹرز نے تمام فلمی چینلز یا تو بند کردیئے یا ان پر پاکستانی فلمیں اور گانے نشر کرنا شروع کردیئے۔

پابندی کے احکامات ہفتے کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے ‘پروڈیوسرز ایسوسی ایشن’ کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران جاری کئے گئے۔

دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کا 2017ء میں سنایا گیا فیصلہ بھی معطل کردیا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ”کوئی ہمارے ڈیم بند کرا رہا ہے اور ہم اس کے چینلز بھی بند نہ کریں۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ بند کریں۔۔ یہ بھارتی پروگرامز اور فلمیں دکھانا۔”

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے سال 2017ء میں بھارتی پروگرام اور ڈرامہ سیریلز پر سن 2016ء میں عائد پابندی یہ کہتے ہوئے ختم کردی تھی کہ موجودہ دنیا جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایک ’گلوبل ویلیج‘ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ لہٰذا اب پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

ہفتے کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسی فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بھارتی پروگرام اور فلمیں دکھانے پر پابندی لگا دی ہے۔

پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی ’پیمرا‘ 15سال کی مدت کے لئے جو لائسنس جاری کرتی ہے اس کی شرائط میں یہ بات درج ہے کہ چینل بھارتی مواد سمیت 10فیصد غیر ملکی مواد نشر کرسکتا ہے۔

فیصلے سے کیبل آپریٹر فکر مند
مقامی حلقوں اور کیبل آپریٹروں کی بڑی تعداد نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کیبل آپریٹر بری طرح متاثر ہوں گے، کیوں کہ ان کے ناظرین کی بڑی تعداد کیبل پر بھارتی پروگرام اور فلمیں دیکھنے کی عادی ہے۔ ماضی میں بھی جب کبھی اس طرح کی پابندیاں لگیں ہیں ایسے ناظرین نے ماہانہ فیس دینا بند کردی تھی جس سے کیبل آپریٹروں کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

نجی چینلز: ’مرے پر سو درے ‘
مذکورہ فیصلے سے نجی ٹی وی چینلز کا بھی متاثر ہونا واضح طور پر نظر آرہا ہے کیوں کہ درجنوں مقامی ٹی وی چینل ایسے ہیں جن پر 24گھنٹوں میں سے کئی کئی گھنٹے مسلسل بھارتی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔ پابندی کی صورت میں ان چینلوں کو مالی خسارہ لازمی ہے۔

تیسرا فکر انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ ان دنوں میڈیا انڈسٹری بحران کی سی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ اور کم آمدنی، زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹیز میں اضافے کے سبب تمام اخبارات کے صفحات کم اور سینکڑوں صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے۔ اس فیصلے کے بعد صورتحال کس حد تک خراب ہوگی اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ البتہ، اس کا فوری حل تلاش انتہائی کٹھن دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں ’نئی پالیسی ‘مرے پر سو درے ثابت ہوگی۔

سنیما مالکان ، سرمایہ کار بھی پریشان
اس فکر سے جہاں ٹیلی ویژن چینل اور کیبل آپریٹر فکرمند ہیں وہیں ملک کے سنیما ہالز کو بھی خدشات لاحق ہوگئے ہیں، کیوں کہ سنیما ہالز پر بھارتی فلموں کی بدولت جہاں تباہ حال مقامی فلم انڈسٹری کو سہارا ملا ہے وہیں سنیما انڈسٹری میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو یہ اپنا سرمایہ ’پھنستا‘ ہوا محسوس ہوگا اور اس کی اثرات مجموعی طور پر منفی ہی نکلیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں