ساہیوال واقعے میں ذیشان کا کردار:بی بی سی کی رپورٹ

دو روز قبل قومی شاہراہ پر ساہیوال کے قریب پنجاب پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس (سی ٹی ڈی) کی جانب سے کیے گئے مبینہ پولیس مقابلے میں دو خواتین سمیت چار افراد کی ہلاکت سے جہاں پولیس کی مبینہ محکمانہ غفلت پر عوام اور سیاسی جماعتیں تنقید کر رہیں ہیں وہیں چند پولیس حکام اور حکومت کی جانب سے اس مبینہ پولیس مقابلے کے حوالے سے جاری کی گئی تفصیلات نے بہت سے سوالات اور مفروضوں کو جنم دیا ہے۔

کیا مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والا خاندان دہشت گرد تھا؟
کیا گاڑی کے شیشے واقعی ہی کالے تھے؟
کیا پولیس اہلکاروں کو گاڑی میں خواتین کی موجودگی کا علم نہیں ہوا؟
اس واقعے میں ذیشان کا کیا کردار تھا؟
کیا پولیس کو گاڑی سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ ملا؟
ان سوالات کے جوابات ہم نے واقعے کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے مراسلے میں بیانات اور جوابات کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا پر چلنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج اورعینی شاہدین کی جانب سے منظرعام پر آنے والی ویڈیوز کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور جوتصویر سامنے آئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔
سوال نمبر 1: کیا مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والا خاندان دہشت گرد تھا؟

اس حوالے سے واقعہ کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سےجاری کیے گئے مراسلے میں ہلاک ہونے والے چاروں افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا لیکن اس کے چند گھنٹوں کے بعد سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پر عینی شاہدین کی جانب سے بنائی جانے والی مختلف ویڈیوز منظرعام پر آنے کے بعد اس موقف کو تبدیل کر لیا گیا اور پنجاب پولیس اور حکومتی وزرا نے گذشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس میں شرکا کو سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے حاصل شدہ تصاویر،ویڈیوز اور ذیشان کے متعلق حاصل شدہ خفیہ معلومات دکھاتے ہوئے صرف کار ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا۔ جبکہ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔

سوال نمبر 2: کیا گاڑی کے شیشے واقعی ہی کالے تھے؟

پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ گاڑی کے شیشے کالے ہونے کے باعث پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین نظر نہیں آئیں۔ پولیس کا یہ موقف کچھ حد تک درست ہے کیونکہ واقعہ کے بعد بنائی جانے والی ویڈیوزمیں گاڑی کی ڈگی اور پچھلی مسافر سیٹ جہاں خاتون موجود تھی کا شیشہ کالا دیکھا جا سکتا ہے جبکہ گاڑی کے دیگر تینوں شیشے کالے نہیں دکھائی دیتے۔

سوال نمبر 3: کیا پولیس اہلکاروں کو گاڑی میں خواتین کی موجودگی کا علم نہیں ہوا؟

اگر پنجاب پولیس کی اس وضاحت کا جائزہ لیا جائے جس میں کہا گیا کہ گاڑی کے شیشے کالے تھےاور خواتین کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکا جبکہ اگر مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی اس ویڈیو جس میں ذیشان کی کار ساہیوال قادرآباد ٹول پلازہ سے گزر رہی ہے تو اس میں ڈرائیور ذیشان کے پیچھے بیٹھی ہوئی خلیل کی 13 سالہ بچی اربیہ دیکھی جا سکتی ہے اور اگر پولیس ان کا پیچھا کر رہی تھی تو ٹول پلازہ پریہ علم ہونا مشکل نہ تھا۔

سوال نمبر 4: اس واقعے میں ذیشان کا کیا کردار تھا؟

اس واقعے میں سب سے اہم کردار ذیشان کا ہے جس کے متعلق بہت سے سوالات نے جنم لیا اور اس واقعے کے بعد تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی بھی ان میں سے بہت سے سوالات کے جوابات کے لیے چھان بین کر رہی ہے مگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں کہا گیا کہ پولیس نے قومی شاہراہ پر جب ذیشان کی گاڑی کا تعاقب کیا تو اس نے پولیس پر فائرنگ کی جب کہ واقعہ کے فوری بعد سامنے آنے والی تصاویر میں اس کو گاڑی کا سٹیرنگ تھامے اور سیٹ بیلٹ باندھے دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ خلیل کے لواحقین کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بھی یہ موقف اختیار کیا گیا پولیس نے گاڑی پر پہلے فائرنگ کی، اور جے آئی ٹی اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔
سوال نمبر5: کیا پولیس کو گاڑی سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ ملا؟

ساہیوال واقعے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ سی ٹی ڈی نے کارروائی کے دوران گاڑی میں سے خود کش جیکٹ، اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کیا۔ پولیس کے اس دعوے کے متعلق قانونی تحقیقات جاری ہیں مگر اگر گاڑی میں بارودی مواد موجود تھا تو پولیس نے جب کار میں سوار افراد پر فائرنگ کی تو اس کے باعث بارودی مواد پھٹا کیوں نہیں؟

دوسرا یہ کہ واقعہ کے بعد ایک مسافر بس میں موجود عینی شاہد کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موقع پر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے گاڑی میں سے ایک کالا بیگ اور سفید خول میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکالتے دیکھا جا سکتا ہے جس کے حوالے سے خودکش جیکٹ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر یہاں ایک اور سوال سکیورٹی اداروں کی ٹریننگ پر اٹھتا ہے کہ اگر اس بیگ میں بارودی مواد تھا تو کیا اس کو ایسے ہی گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں رکھا جانا چاہیے؟ کیا اس کے لیے بم ڈسمپوزل سکواڈ کو حرکت میں نہیں آنا چاہیے؟

گاڑی میں والدین کے ساتھ یہ دو بچیاں اور ان کا ایک بھائی بھی موجود تھا

ان تمام مفروضوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور سکیورٹی اداروں کی تربیت سازی اور ایسے واقعات کے منطقی انجام کے حوالے سے بھی جنم لیتے سوالات کے جوابات کی تلاش کے لیے انتظامی اور سیاسی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

عماد خالق
بی بی سی اردو

اپنا تبصرہ بھیجیں