باتوں باتوں میں … طارق بٹ … قمر پہ نثار

… تسلیم کہ قمرالاسلام راجہ انتہائی نفیس اور شریف النفس انسان ہیں اپنے حلقے کے عوام میں گھل مل جانا ان کا وہ وصف ہے جو انہیں اپنے مقابل سے ممتاز بناتا ہے حلقے کے معاملات میں اختیارات سے یکسر عاری ہونے کے باوجود ہر اتوار کو اپنے دفتر میں بیٹھ کر عوام کے مسائل سننا بھی بڑی ہمت کا کام رہا کہ کر کچھ بھی نہ سکنا مگر ہر ہفتہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں-
یہ بھی تسلیم کہ موصوف نے اپنی مادری جماعت (مدر پارٹی ) مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر اس وقت مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا جب مسلم لیگ ن کو ایک ایک ووٹ کی اشد ضرورت تھی مگر یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ جس جماعت کا ساتھ انہوں نے اس وقت چھوڑا تھا اسی کی بائیسکل پر بیٹھ کر وہ پنجاب اسمبلی پہنچے تھے شرافت اور اصول کا تقاضا تو یہ تھا کہ بائیسکل سے اتر کر شیر کی سواری سے پہلے اپنے سر سے وہ بوجھ تو اتارتے جو بائیسکل کے باعث ووٹر نے ان کے سر پر لاد دیا تھا مگر سیاست میں اصول کہاں یا اصول کی سیاست کہاں –
یہ بھی تسلیم کہ قمرالاسلام راجہ نے آٹھ ماہ نیب کے کالے قانون کا بہادری کے ساتھ سامنا کیا نہ روئے نہ گڑگڑائے اور نہ ہی کوئی فریاد کی بلکہ عدالت میں نیب کے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی ایسی تیسی پھیرتے ہوئے ضمانت پر گھر آ گئے اور گھر آ کر ایسے چپ سادھ کر بیٹھ گئے جیسے نیب سے طے کر کے آئے ہوں کہ اب میں نے چپ کا روزہ رکھتے ہوئے چپ ہی کا ایک طویل چلہ کاٹنا ہے مگر بھلا ہو ان کے سابقہ قائد اور حالیہ مخالف چودھری نثار علی خان کا جنہوں نے انہیں چپ کا روزہ توڑنے پر مجبور کر دیا-
چپ کا روزہ توڑتے ہوئے قمرالاسلام راجہ نے اپنے اسی قائد چودھری نثار علی خان کے لتے لینے شروع کر دیئے جس کے پیچھے دست بستہ کھڑا ہونا بھی وہ اپنے لئے اعزاز سمجھا کرتے تھے چودھری نثار علی خان تو رہے ایک طرف قمرالاسلام راجہ تو چودھری صاحب کے معاونین خصوصی شیخ ساجد الرحمن ، شیخ اسلم اور راجہ لطیف سے بھی ایک قدم پیچھے چلتے تھے کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے یا گستاخوں کی فہرست میں نام نہ آ جائے پھر یکدم اتنی توانائی کا حصول کہاں سے ممکن ہوا کہ موصوف نے اپنے قد سے بہت اوپر دیکھنا شروع کر دیا-
اتنا کچھ تسلیم کیا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے چودھری نثار علی خان کے اپنی قیادت کے ساتھ اختلافات نے قمرالاسلام راجہ کو ایڑیوں کے بل کھڑا کر دیا تھا کہ وہ ہجوم میں بھی نواز شریف اور شہباز شریف کو نظر آ جایا کرتے تھے مگر ایڑی والے جوتے پہن کر کیا ہر وقت اپنے قد کو اونچا رکھا جا سکتا ہے صاف ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں اس لئے کہ ایڑی والے جوتے کے مسلسل استعمال سے ایڑی درد کرنے لگتی ہے اور ایسے میں جوتا اتارے بنا اور کوئی چارہ نہیں رہتا-
نظر بظاہر قمرالاسلام راجہ جس قد کے ساتھ کھڑے کیئے گئے وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے الیکشن سے قبل تو نیب نے انہیں اپنے شکنجے میں لے لیا مگر اس شکنجے سے چھٹکارا پانے کے باوجود موصوف اپنے اندر وہ تحرک پیدا نہ کر سکے جو وقت کی اہم ضرورت تھا وہ رابطہ عوام مہم جو ان کے قد کاٹھ میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی تھی شروع نہ کی جا سکی اس کے پیچھے جو بھی عوامل کارفرما تھے ان سے قطع نظر قمرالاسلام راجہ وہ خلا پر کرنے میں بری طرح ناکام رہے جو حلقے میں موجود تھا دوسری جانب ان کے مخالف چودھری نثار علی خان نے اپنے دونوں قومی حلقوں میں بنفس نفیس رابطے جاری رکھے گو کہ تاحال ان رابطوں میں وہ بھرپور عوامی پزیرائی حاصل نہیں کر پا رہے مگر اس وقت انہیں زیادہ ہجوم درکار بھی نہیں اس لئے کہ وہ کسی الیکشن مہم کے سلسلے میں تو نکل نہیں رہے ان کے مد نظر تو صرف رابطے استوار رکھنا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں کہ گلے شکوے بھی ہو رہے ہیں اور ان کے دھڑے کے لوگ اپنی بڑھاس بھی نکال رہے ہیں مگر چودھری صاحب جس تحمل سے یہ سب سن رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئیندہ الیکشن تک وہ مسلسل تگ و دو سے اپنی شخصی ساکھ بحال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو جائیں گے-
مسلم لیگ ن اس وقت جس گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لئے اسے بہت جلد کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی نااہلی، روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری، معاشی بے حالی اور بچگانہ طرز حکمرانی پکار پکار کر اپوزیشن کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے مگر اپوزیشن کا یہ تہیہ کہ حکومت کو خود اس کے اپنے بوجھ کے نیچے دبانا ہے اور یہ گناہ بے لذت اپنے سر نہیں لینا حکومت کو مزید اشتعال دلائے جاتا ہے جس سے مزید غلطیاں سر زد ہوتی چلی جاتی ہیں ان غلطیوں کا براہ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہونے کے قریب ہے کل کلاں اگر یہ لبریز پیمانہ انہیں سڑکوں پر لے آتا ہے تو ایسے میں رہنما کی ضرورت شدت سے محسوس ہو گی کہ شتر بے مہار سب کچھ تہس نہس کر دیا کرتا ہے-
گذشتہ عام انتخابات میں جہاں دیگر عوامل کارفرما رہے وہاں خصوصا مسلم لیگ ن میں نواز شریف اور مریم نواز کی عدم دستیابی نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کا مسلم لیگ ن کو نقصان برداشت کرنا پڑا خصوصا پنجاب میں ، خود چودھری نثار علی خان بھی شیر کا نشان نہ ہونے کے باعث شخصی اور ذاتی ووٹ تو حاصل کر پائے مگر جماعتی ووٹ نہ ملنے اور چند دیگر عوامل کے باعث تین نشستوں پر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے اب جب کہ الیکشن قصہ پارینہ بن چکا انہوں نے بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا شروع کیا ہو گا تو جان چکے ہوں گے کہ دریا سے باہر موج اپنی طاقت کھو جاتی ہے مسلم لیگ ن کے سوجھ بوجھ رکھنے والے رہنما شاہد خاقان عباسی ، سردار ایاز صادق ، رانا تنویر اور خواجہ سعد رفیق اس کوشش میں مسلسل سرگرداں ہیں کہ چودھری نثار علی خان اور نواز شریف کے اختلافات جلد از جلد ختم کرائے جا سکیں تاکہ جماعت کو ایک اعلی پائے کا ترجمان واپس مل سکے درویش کی معلومات کے مطابق مریم نواز شریف بھی اب چودھری نثار علی خان کی واپسی کی حامی بن چکی ہیں بس نواز شریف کی رضامندی کا انتظار ہے جنہیں زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ چودھری نثار علی خان نے بیگم کلثوم نواز کی علالت کے دوران لندن میں موجودگی کے باوجود بیمار پرسی تک نہ کی اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد نواز شریف کے پاس پرسہ کے لئے تشریف لائے مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ جلد چودھری نثار علی خان بیگم کلثوم نواز کی تعزیت اور نواز شریف کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جانے والے ہیں جس سے تمام اختلافات اپنی موت آپ مر جائیں گے پھر قمرالاسلام راجہ کا قد بھی واپس اپنی جگہ پر آ جائے گا کہ قمر پر بہرحال نثار کو فوقیت حاصل ہے …!

اپنا تبصرہ بھیجیں