پی ٹی وی کے احتجاج کرنے والے 35 ملازمین کو معطل کر دیا گیا

پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلیویژن میں کام کرنے والے 35 ملازمین کو گذشتہ روز معطل کردیا گیا ہے۔ معطلی کے ساتھ ساتھ ان ملازمین پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ فلحال تقریباً 250 ملازمین تنخواہوں میں کٹوتی اور ادارے میں ہونے والی مبینہ بدنظمی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جبکہ 350 پنشنرز پچھلے ڈیڑھ سال سے اپنی پینشن کے لیے حکومتی عہدیداران کے دفاتر سمیت پی ٹی وی کے چکر لگارہے ہیں۔

معطل کیے گئے ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ چار فروری سے جاری تنخواہوں میں کٹوتی کے نتیجے میں ہونے والے احتجاج کا حصہ تھے۔

اس بارے میں جہاں پی ٹی وی کے ڈائریکٹر یہ مانتے ہیں کہ ادارہ کئی سالوں سے بدنظمی کا شکار ہے، وہیں وہ ملازمین کو معطل کرنے کے عمل کو ادارے کے مفاد میں درست قرار دے رہے ہیں۔
دھر ملازمین کی یونین کی ڈپٹی جنرل سیکٹری مریم سکندر نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی ٹی وی یونین کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری اور کرنٹ افیئرز پروڈیوسر، مریم سکندر نے ملازمین کو معطل کرنے کی خبر کی تصدیق کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بھی ان ملازمین کی فہرست میں شامل ہیں۔

انھوں نے کہا ’ہمیں دیے گئے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ اب آپ دفتر نہیں آسکتے اور گھر پر رہیں، ساتھ ہی کہا گیا کہ تین دن کے اندر آپ اپنا جواب جمع کرائیں۔‘

ان کا موقف ہے کہ ’ہمیں دیے گیے لیٹر کی تاریخ چار فروری ہے۔ یعنی ’بیک ڈیٹ‘ میں معطل کیا گیا ہے۔ اس میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نیشنل انڈسٹریل کمیشن ریلیشن (این آئی آر سی) نے، جو کہ ملازمین کے لیے ہائی کورٹ کی حیثیت رکھتی ہے، نے بھی ایک دن پہلے ہمیں کہا تھا کہ آپ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کے باوجود انھوں نے ہمیں چارج شیٹ (دی) اور معطل کیا ہے۔‘
انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان تنازعہ کیا ہے؟

پی ٹی وی کے ملازمین نے بتایا کہ حکومتی اداروں میں نئے بجٹ کے ساتھ تنخواہیں بڑھتی ہیں جبکہ پی ٹی وی میں ایسا نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ جب نئی مینیجمنٹ آئی تو کلیکٹو بارگیننگ ایجنٹ (سی بی اے) نے ملازمین کے مطالبات ان کے سامنے رکھے۔ عموماً سی بی اے کے مطالبات رکھنے کے بعد بورڈ آف ڈایریکٹرز اس کو منظور یا مسترد کرتے ہیں۔

مریم سکندر نے بتایا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں صرف ایک چارٹر منظور ہوا ہے جس کے تحت تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

’نئی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے دوران چند باتوں پر اتفاقِ رائے ہوا لیکن کچھ پر انھوں نے جب ہمارے مطالبات نہیں مانے تو ہم نے احتجاج کا اعلان کردیا۔ انھوں نے ہمیں پھر مذاکرات کے لیے بلا لیا اور کہا کہ دس دن کے اندر کمیٹی اپنی رپورٹ جمع کرے گی۔‘

پی ٹی وی اور حکومت کا ’بیل آؤٹ‘ پیکج

احتجاج میں شامل پی ٹی وی کے ریٹائرڈ پینشنر محمد اشرف نے کہا کہ جب تک حکومتِ پاکستان پی ٹی وی کو بیل آؤٹ پیکج نہیں دیتی، تب تک پی ٹی وی کے حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت دو طرح کے لوگ وزیرِ اعظم عمران خان کے آس پاس ہیں۔ ان میں سے مختلف لوگ پاکستان ٹیلیویژن کی مینیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں جو بھی ایم ڈی آیا ہے اس نے اس ادارے کی دولت کو بے دریغ لُوٹا ہے۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ ہم در بدر گھوم رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 1995 سے اب تک جتنے وزیر، یا پی ٹی وی کے ایم ڈی اور چئیرمین آئے ہیں، حکومت کو ان کے اثاثوں کی چھان بین نیب کے ذریعے کروانی چاہیے۔
’پی ٹی وی پر 6 ارب ادا کرنے کی ذمہ داری‘

پی ٹی وی کے موجودہ مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پی ٹی وی میں انتظامی حالات ’بہتر‘ نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ادارہ اچھی طرح مینیج نہیں ہوا۔ تقریباً 6 ارب روپے کے قریب پرانی جمع شدہ رقوم ہیں جن کی ادائیگی کرنی ہے۔ اس سلسلے میں پینشن فنڈ بنانا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا اور اس کو دوسرے کاموں میں استعمال کرلیا گیا۔ اس وقت ہمارے پاس 14 ارب روپے کا فنڈ ہونا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے ملازمین کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل کمیشن ریلیشن (این آئی آر سی) کے تحت ہونے والی کاروائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ضابطہ اخلاق بالکل واضح ہے کہ کام کے دوران کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔

’یہاں سب مین لابی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کا جو بھی آدمی وہاں سے گزر رہا ہے اس کے اوپر وہ نعرے بازی کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹ نہیں ہے؟ میری ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ یہ تو ان تمام پچھلی حکومتوں اور سابق انتظامی امور کو سنبھالنے والوں سے پوچھا جائے کہ لوگوں کی پینشن کہاں ہیں؟‘

یاد رہے کے ارشد خان دو بار پہلے بھی پی ٹی وی میں بطورِ ایم ڈی تعینات رہ چکے ہیں۔ پہلی بار وہ مئی 2004 سے مئی 2006 تک اور پھر دسمبر 2008 سے نومبر 2010 تک اس عہدے پر فائز رہے لیکن ملازمین کے مطابق ان کی شکایتیں اپنی جگہ موجود رہی ہیں۔
پی ٹی وی کے بند ہونے کی خبریں
اس ساری صورتحال کے نتیجے میں کچھ دنوں سے پی ٹی وی کے بند ہونے کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔

پی ٹی وی کے موجودہ ایم ڈی ارشد خان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک پاکستان ہے تب تک یہ ادارہ بھی رہے گا۔‘

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی کو یہ مسائل اس لیے پیش آ رہے ہیں کیونکہ پہلے کبھی اس کا موثر بزنس پلان نہیں بنایا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی وی میں سالہا سال سے ہونے والی سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ آج اس نہج پر ہے۔ اگر انتظامیہ چاہے تو سب ٹھیک کرسکتی ہے اور اسی لیے ہم نے نئے ایم ڈی کو چُنا ہے تاکہ معاملات بہتر سمت میں جاسکیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی وی کو بند کرنے کی خبریں ایک بے وقوفانہ سوچ ہوگی۔ پی ٹی وی کو اس وقت ایک بزنس پلان کی ضرورت ہے بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے اپنے اثاثے ہیں جن کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔‘

بی بی سی اردو

اپنا تبصرہ بھیجیں