اُداسی لوٹ آتی ہے اظہر نیاز

اُداسی لوٹ آتی ہے
نہیں معلوم کیونکر
خواب بن کر چاندنی آنگن میں آتی ہے
تمھاری یاد بن کر بارشوں میں مسکراتی ہے
نہیں معلوم کیونکر
آسماں قدموں میں جھک کر گنگناتا ہے
سمندر خامشی کو توڑ کر ساحل پہ آتا ہے
نہیں معلوم کیونکر
دن ڈھلے تو یہ گلابی شام آتی ہے
پہن کر پھر نئے کپڑے اداسی لوٹ آتی ہے
اظہر نیاز

اپنا تبصرہ بھیجیں