آئی ایم ایف کی شرط مان لی گئی

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی غیر معمولی کمی کا تعلق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مجوزہ بیل آؤٹ پیکچ پر حال ہی میں ہونے والے مذاکرات سے ہے۔

اسلام آباد —
پاکستانی روپے کی قدر میں جمعے کو غیر معمولی کمی واقع ہوئی اور انٹر بینک یعنی بینکوں کے درمیان لین دین کی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے قدر 8 روپے کے اضافے کے ساتھ 142 روپے تک پہنچ گئی۔

لیکن دن کے اختتام تک روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہوکر 137 روپے ہوگئی تھی۔

گزشتہ روز انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 134 روپے تھا۔

اسٹیٹ بینک کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اسٹیٹ بینک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تاہم انہوں یہ واضح نہیں کیا کہ روپے میں ہونے والے قدر میں اچانک کمی کی کیا وجہ ہے۔

غیر ملکی کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی غیر معمولی کمی کا تعلق پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان مجوزہ بیل آؤٹ پیکج پر حال ہی میں ہونے والے مذاکرات سے ہے۔

اطلاعات کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی تجاویز دی ہیں۔

’پاکستان فوریکس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کا تعلق بھی پاکستان کے لیے ممکنہ بیل آؤٹ پیکج سے قبل آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی جانے والی شرائط سے ہو سکتا ہے۔

جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس سے عوام کی مشکلات بڑھیں گی۔

جمعے کو انٹر بینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر میں ہونے والی ریکارڈ کمی کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسدعمر نے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین اسٹیٹ بنک کرتا ہے اور تازہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ ان کے بقول ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے برقرار رکھا جارہا تھا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور برآمدت میں کمی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنا ضروری تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تبدیلی کا تعلق ڈالر کی طلب اور رسد سے ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ اگرچہ روپے کی شرحِ تبادلہ کو کم کرنا کوئی اچھا اقدام نہیں تاہم ان کے بقول روپے کی قدر میں کمی کرنے اور دیگر حکومتی اقدامات سے ملک کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

دریں اثنا وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کا اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھنے سے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ملکی برآمدات میں اضافے کے اقدامات بھی کر رہی ہے جب کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ملک میں ترسیلاتِ زور کو آسان بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔

تاہم کرنسی کے لین دین سے وابستہ ملک بوستان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی سے متعلق کسی واضح پالیسی کی عدم موجودگی کے سبب فارن ایکسچینج مارکیٹ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

ملک بوستان نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 30 فی صد سے زائد کمی ہو چکی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی بیرونی ادائیگی کے توازن کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوتی تو پاکستانی روپے کی قدر کو مستقبل قریب میں بھی دباؤ کا سامنے رہے گا۔

پاکستان کو اس وقت 12 ارب ڈالر کے مالیاتی خسارے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے کی پاکستان نے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے بھی بیل آوٹ پیکج کی درخواست کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں