سپریم کورٹ نے عمران خان سے آف شورکمپنیوں کی تفصیلات طلب کرلیں

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان سے ان کی تمام آف شورکمپنیوں کی مکمل تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے حنیف عباسی کی درخواستوں کی سماعت کی، سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے مزید دستاویزات عدالت میں جمع کراتے ہوئے عمران خان کے بینک اکاؤنٹس، بنی گالہ میں اراضی کی خریداری کے لیے کی گئی ادائیگی، عمران خان کے2001 سے2003 تک انکم و ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے اور جمائما کے نام پر اکاؤنٹ کی تفصیلات طلب کرنے کی استدعا کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ تک رسائی یا فراہمی کے لئے درخواست دیں، آپ کے دلائل سن کرمتعلقہ فریق کو نوٹس کریں گے۔
دوران سماعت اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان فلیٹ کے مالک نہیں فلیٹ آف شور کمپنی کا ہے، چند سو روپے کا بینک اکاؤنٹ ہو تو بھی ظاہر کرنا ضروری ہے، عمران خان نے 17 سال آف شور کمپنی اور فلیٹ کوچھپایا، جان بوجھ کر اثاثے ظاہر نہ کرنا غلط بیانی کے زمرے میں آتاہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے جائیداد چھپائی نہیں، عمران خان کے جواب میں فلیٹ کی قیمت درج ہے، عمران خان نے آف شور کمپنی نہیں فلیٹ کو ظاہر کیا، آپ تکنیکی بنیادوں پر کھیل رہے ہیں۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان کے مطابق وہ کمپنی انھوں نے بنائی اور پھر کہا کہ کمپنی ان کی بہنوں کی تھی، 2000 تک نیازی سروسز پر ویلتھ ٹیکس لاگو ہوتا تھا، نیازی سروسز کا اثاثہ لندن میں 2003 میں فروخت ہوا، فلیٹ 2003 میں فروخت ہوا تو نیازی سروسز 2015 تک کیوں چلی ، 350 پاؤنڈ کمپنی فیس اور سولیسٹر کو ایک ہزار پاؤنڈ فیس دی جاتی رہی، 12 سال کمپنی فیس اور وکلاء کو ادائیگیاں کیوں ہوئیں ، کیا 12 سال کمپنی انڈے دیتی رہی ہے، اس عمل سے لگتا ہے کہ نیازی سروسز کے اور بھی اثاثے تھے، دیگر اثاثے آج بھی عوام سے چھپائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عام آدمی کو ٹیکس معاملات کا علم نہیں ہوتا، زیادہ تر لوگ اکاؤنٹنٹ اور کنسلٹنٹ کے کہنے پر ہی چلتے ہیں، یہ معاملہ بھی آسانی سے حل ہوسکتا ہے، عمران خان سے حلف نامہ لے سکتے ہیں کہ نیازی سروسز کا فلیٹ کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں تھا،آپ ایک ممبر قومی اسمبلی کی ڈس کوالیفکیشن مانگ رہے ہیں، صرف فرضی باتوں پر کسی کو نااہل نہیں کرسکتے، صادق اورامین نہ ہونا ساری عمر کا دھبہ ہے، ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو کیسے ڈکلیئر کریں کہ وہ صادق اورامین نہیں ہے۔
اکرم شیخ کے دلائل پر جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کاکیس کیپٹل اثاثوں سے متعلق ہے لیکن جس قانون کاآپ حوالہ دے رہے ہیں وہ انکم سے متعلق ہے، غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنا کس قانون کے تحت ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے حنیف عباسی کے وکیل سے استفسار کیا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے نتائج قانون میں درج ہیں، آپ انکم اور ویلتھ ٹیکس قوانین کو ملا رہے ہیں، کیا اثاثے ظاہر نہ کرنے سے نااہلی کا سوال پیدا ہوتا ہے، کیامنتخب رکن کی اس بنیاد کی اس بات پر نااہلی ہوسکتی ہے کہ اس نے ایک عرصہ پہلے اثاثے ظاہر نہیں کئے ، کیا ماضی کے اقدام پر کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ صادق اورامین نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ آپ نے عمران خان کے ٹیکس گوشوارے تو دیکھے ہی نہیں، پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انکم ٹیکس گوشواروں میں آف شور کمپنی کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو آف شور کمپنی کی تفصیلات دینا ہوں گی، آف شورکمپنی کیسے بنتی ہے اور اس کا مالک کون ہوتا ہے، مالک اور بینیفشل میں کیا فرق ہوتا ہے، کیا آف شور کمپنی متعلقہ مالک کے قانون کے مطابق ٹیکس بچانے کے لئے ہوتی ہے ، کیا ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانا غیر قانونی ہے۔
اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ بنی گالہ اراضی کا سودا 4 کروڑ 35لاکھ روپے میں ہوا، جمائما سے 3کروڑ 90لاکھ ادھار لے کر واپس کئے گئے تو پھر لندن فلیٹ کے بقیہ 2 کروڑ 40لاکھ کہاں گئے، عمران خان کے مطابق باقی رقم جمائماخان سے لی لیکن جمائما خان کی جانب سے رقم کی منتقلی ثابت نہیں ہوئی، بظاہر یہ معاملہ منی لانڈرنگ کا لگتا ہے، جمائماخان کہتی ہیں کہ وہ بے نامی دار ہیں، رقم جمائما کی تھی تو وہ بے نامی دار نہیں ہوسکتیں، بنی گالہ اراضی بے نامی تھی اور بے نامی جائیداد تحفے میں نہیں دی جاسکتی، رقم کی منتقلی سے متعلق ثبوت دینا عمران خان کی ذمہ داری ہے، عمران خان نے سٹی بینک کا کرنسی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ دیا ہے، سرٹیفکیٹ کے مطابق ڈالر سے رقم روپے میں تبدیل ہوئی، جمائما کو رقم دینا ہوتی تو پاؤنڈز میں دیتیں، لندن میں تو اونٹ بھی نہیں ہوتے جن کے ذریعے رقم منتقل ہوئی ہو۔ جس پر عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق کوئی منی ٹریل نہیں ہے، منی ٹریل نہ ہو تو پھر کیا ہوگا۔