جیو اور ڈان کے ساتھ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے، فوجی ترجمان

واشنگٹن —
مبشر علی زیدی
مجیب الرحمان شامی پاکستان کے انتہائی سینئر صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ روزنامہ ’پاکستان‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ ’دنیانیوز‘ پر نقطہ نظر کے عنوان سے پروگرام میں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کے کالم کئی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کی زیر ادارت ہفت روزہ ’زندگی‘ ایک زمانے میں بہت مقبول تھا۔ ان کے کئی حکمرانوں سے قریبی تعلقات رہے اور بہت سے درون خانہ معاملات سے آگاہ ہیں۔

میں نے پہلا سوال کیا کہ کئی سینئر صحافی کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کے حالات خراب ہیں۔ کئی اہم صحافی اصرار کرتے ہیں کہ حالات بالکل خراب نہیں۔ آپ بتائیں کہ کون سی بات درست ہے۔ اور فوجی ترجمان سے ملاقات میں کیا گفتگو رہی؟

شامی صاحب نے کہا کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ میڈیا بہت مشکل حالات کا شکار ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میڈیا کی معیشت پر بہت دباؤ ہے۔ گزشتہ دور حکومت کے اشتہارات کی ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں۔ نئی حکومت نے اشتہارات میں بہت کمی کردی ہے۔ چھوٹے اخبارات خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن، بڑے میڈیا ہاؤسز بھی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کوئی اشتہاری مہم نہیں چل رہی، کسی کا کاروبار نہیں چل رہا۔ سرکار کے علاوہ پرائیویٹ بزنس سے ملنے والے اشتہارات بھی گھٹ گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے نیوز پرنٹ بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ اتنا کہ اخبارات اپنے صفحات کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے میڈیا ہاؤسز ملازمین کی چھانٹی کر رہے ہیں یا خطرہ ہے کہ کریں گے۔ کارکنوں میں اضطراب کی لہر ہے اور میڈیا کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بعض میڈیا ہاؤسز کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ ان کی سرکولیشن میں رکاوٹ ڈالی جارہی تھی۔ ان کا بزنس معمول کے مطابق نہیں تھا۔ اس ساری صورتحال نے بھی مالکان کو، ایڈیٹرز کو اور کارکنوں کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

شامی صاحب نے بتایا کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی دعوت پر میڈیا اونرز ان سے ملے۔ طویل ملاقات میں تمام مسائل بیان کیے گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وعدہ کیا کہ ان سے متعلق میڈیا ہاؤسز کو جو شکایات ہیں، انھیں وہ دور کردیں گے اور حالات کو معمول پر لائیں گے۔ اس سلسلے میں کچھ اقدامات کیے گئے ہیں اور توقع ہے کہ جیو، جنگ اور ڈان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔

شامی صاحب نے کہا کہ جب وزیر اطلاعات کا ذکر ہوا تو ڈی جی ’آئی ایس پی آر‘ نے انھیں فون کرکے کہا کہ میڈیا کے مسائل پر گفتگو کے لیے آپ کی طرف آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بجائے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ میرے پاس آئیں، میں ادھر آجاتا ہوں۔ وہ رات 11 بجے وہاں آئے اور اجلاس میں شریک ہوگئے۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے کوئی نظام وضع کیا جائے گا۔ اس کے لیے کمیٹی بن گئی ہے۔

عام خیال ہے کہ حکومت کا رویہ اور اقدامات میڈیا دوست نہیں ہیں اور وہ میڈیا کے مسائل سے بے پرواہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ میڈیا کو اس کے حال پر چھوڑ دے اور جو بھی ان پر گزرے، سو گزرے۔ اس پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا مالکان کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ تبادلہٴ خیال میں امید ہے کہ کوئی مثبت پیشرفت ہوگی۔

میں نے کہا کہ شامی صاحب، اخبارات اور ٹی وی چینل سرکاری اشتہارات کی توقع کیوں رکھتے ہیں۔ اور بزنس نہیں رہا تو نئے میڈیا ادارے کیوں بن رہے ہیں؟

شامی صاحب نے کہا کہ جی ہاں، میڈیا ہاؤسز کو اپنے معاملات کو خود دیکھنا چاہیے۔ لیکن اس وقت ملک کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، مارکیٹنگ ممکن نہیں رہی اور سب لوگوں نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے بڑے گروپ بھی دباؤ میں آگئے ہیں۔ جن میڈیا ہاؤسز مالکان کے دوسرے کاروبار ہیں تو وہ وہاں سے پیسہ نکال کر یہاں لگا رہے ہیں۔ لیکن جو چھوٹے اور علاقائی اخبارات ہیں، ان کی ستر اسی فیصد آمدن کا ذریعہ سرکاری اشتہارات ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا آسان نہیں رہا۔ حکومت بھی چاہ رہی ہے کہ اگر کچھ اخبارات اور میڈیا ہاؤسز بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں۔ اسے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

میں نے کہا کہ گزشتہ روز میری طلعت حسین سے گفتگو ہوئی۔ ان کا خیال ہے کہ نئے چینلوں کے ذریعے میڈیا انڈسٹری کا ڈھانچا بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی غدر مچایا جاتا ہے تاکہ کان پڑی آواز نہ آئے۔

شامی صاحب نے کہا کہ الطاف حسن قریشی صاحب نے کئی عشرے پہلے بھٹو صاحب کے دور میں شعر کہا تھا کہ:

اندھوں نے مل کے شور مچایا ہے چار سو

تا سن سکے نہ کوئی کسی دیدہ ور کی بات

صورتحال سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا پر بدتمیزی کا طوفان برپا ہے۔ لوگوں کو ہدف بنا کر مہم چلائی جاتی ہے۔ خود مجھے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا فورمز بہت متحرک ہیں اور ہنگامہ مچاتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ اداروں پر بھی شک کا اظہار کرنے والے موجود ہیں۔ لیکن جب مچھلی بازار میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس نے کس کو کیا کہا ہے اور اس میں کس کا ہاتھ ہے۔

بڑے بزنس ہاؤس میڈیا میں آ رہے ہیں اور نئے چینل کھول رہے ہیں تو یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ ان کے پیچھے کوئی قوت ہے یا ان کی اپنی خواہشات انھیں اس میدان میں لائی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کی تنخواہیںں، خاص طور پر اینکرز کے مشاہرے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا سب کے بس کی بات نہیں رہی۔ اس بارے میں ہم شک کا اظہار کر سکتے ہیں۔ الزام لگا سکتے ہیں۔ لیکن یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

میں نے کہا کہ ’پی ایف یو جے‘ کے کئی دھڑے ہوچکے ہیں اور ان کے درمیان فرقہ واریت جیسی مخاصمت ہے۔ ایک دھڑے نے سنسرشپ کے خلاف مہم شروع کی ہے۔ کیا اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا اور کیا صحافی کبھی متحد ہوں گے؟

شامی صاحب نے کہا کہ یہ بات آپ کی درست ہے، ہماری صحافت میں فرقہ واریت زوروں پر ہے۔ ان کے بجائے اب پریس کلب صحافیوں کے اتحاد کا مرکز بن رہے ہیں۔ صحافیوں کی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز بھی پریس کلب چلا رہی ہیں کیونکہ وہاں تمام لوگ یکجا ہوجاتے ہیں۔ لیکن دوسری تنظیمیں سب نے اپنی اپنی بنالی ہیں۔ مختلف عناصر کے پیچھے مختلف طاقتیں کام کر رہی ہیں۔ مالکان کی تنظیم ’سی پی این اِی‘ بھی دھڑے بازی کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ آزادی صحافت کے مسائل پیش آتے تھے تو سب لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے اور میڈیا ہاؤسز ایک دوسرے کے خلاف مہم نہیں چلاتے تھے۔ لیکن، اب وہ روایات ختم ہوگئی ہیں۔ بڑے مفادات والے لوگ اور بزنس ہاؤسز میڈیا میں آئے ہیں تو اپنی آلائشیں بھی ساتھ لائے ہیں۔ اس صورتحال نے پروفیشنل ازم کو متاثر کیا ہے۔ جن لوگوں کا اوڑھنا بچھونا صحافت تھی، ان کے لیے حالات سازگار نہیں رہے اور کشادہ ماحول کشیدہ ہوچکا ہے۔

thanks VOA

اپنا تبصرہ بھیجیں