صرف ایک قدم منزل کی طرف میرا کالم۔ اظہر نیاز

’’سعودی عرب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ بیان میری خواہش ہے۔ خواہشوں کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق خوابوں سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خواب دیکھنے والے ہی تعبیر پاتے ہیں۔ جیسے چلنے والے منزل پاتے ہیں۔اب تک تو یہ ہو رہا ہے کہ امریکہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے تعلقات چین سے ایسے ہونے چاہیے ۔ایران سے ویسے ہونے چاہیے ۔انڈیا سے سے کیسے ہونے چاہیے ۔دہشت گردوں کو پھانسی نہیں دینی چاہیے ۔لگ یہ رہا ہے کہ ہم اندھے ہیں اور سب ہمیں رستہ دکھانا چاہتے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ ہم کمزور ہیں ۔

ایک صاحب جنگل میں بیٹھے ہوئے تھے ہاتھ میں ایک لالٹین تھی اور سوچ رہے تھے کہ راہ چلتے دوسرے شخص نے اسے دیکھا اور پوچھا کہ بیٹھے کیا سوچ رہے ہو۔ پہلے شخص نے کہا کہ میں نے جنگل کے پار جانا ہے۔ رات اندھیری ہے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ میرے پاس جو لالٹین ہے وہ محض ایک قدم بھی روشنی نہیں کرتی‘ اتنا طویل سفر کیسے طے کروں گا۔ دوسرے شخص نے کہا ہاں یہ تو ہے اگر تم بیٹھے رہو گے تو کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچ پاؤ گے۔ البتہ اگر اٹھو اور چلو تو یہ کم روشنی والی لالٹین بھی تمہیں منزل پر پہنچا دے گی۔
پہلے شخص نے کہا کیسے۔ تو دوسرے شخص نے جواب دیا کہ جب تم چلو گے تو یہ لالٹین تمہارا ایک قدم روشن کر دے گی اور جب تم دوسرا قدم اٹھاؤ گے تو دوسرا قدم روشن ہو جائے گا۔ اس طرح تم منزل پر پہنچ جاؤ گے۔ اگر تم بیٹھے رہو گے تو کبھی پہنچ نہیں سکو گے کیونکہ پہنچنے کے لیے چلنا ضروری ہے۔
اگر ایک شخص کی جیب میں پاسپورٹ ہو جس پر امریکہ کا ویزہ بھی لگا ہو۔ سامنے اس کے نقشہ پڑا ہو جس پر امریکہ جانے کے راستے کی نشاندہی ہو ‘ زاد راہ بھی ہو‘ تو کیا وہ شخص امریکہ پہنچ جائے گا۔ غالباً نہیں۔ کیونکہ امریکہ جانے کے لیے ایک قدم اٹھانا ضروری ہے۔ ایک قدم منزل کی طرف۔ جی ہاں ہماری منزل امریکہ ہی ہے۔ اس لیے میں نے امریکہ کا ذکر کیا۔ اور امریکہ ہی پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ امریکہ عراق میں عوام کو ان کے حقوق دلانا چاہتا ہے۔ امریکہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ چاہتا ہے اور ہر ملک سے کچھ نہ کچھ چاہتا ہے۔
کیا بات ہے کہ کوئی بھی دوسرا ملک کسی بھی دوسرے ملک سے کچھ نہیں چاہتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ سپرپاور ہے۔ اسے یہ ’’حق‘‘ حاصل ہے کہ وہ ’’گاڈ فادر‘‘ کا رول کرے یا ’’بھائی لوگوں‘‘ کی طرح اپنا حصہ وصول کرے۔
کیا بات ہے کہ اسلامی ممالک میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو یہ کہہ سکے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں کوئی ایسا ملک جو اسلامی بلاک کے قائد کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ Samuel Huntingtonنے اپنی معروف کتاب تہذیبوں کا تصادم میں چھ ایسے ممالک کا ذکر کیا ہے جن میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ عالم اسلام کی سربراہی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔جس میں سرفہرست انڈونیشیا ہے۔ جس کے بارے میںSamuel Huntington کا خیال ہے کہ معاشی طور پر تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن بالکل ایک کونے میں ہونے کی وجہ سے قائد بننے کے امکان کم ہیں۔ اس کے بعد پاکستان ہے جو بہترین لوکیشن میں موجود ہے‘ دفاع مضبوط ہے‘ جدید سائنس کی آگاہی موجود ہے‘ نیوکلیئر پاور ہے‘ لیکن یہ اپنے آپ کو محض انڈیا کو سامنے رکھ کر پلاننگ کرتا ہے۔ اور سب سے بڑی خرابی اس کا اندرونی خلفشار ہے۔ اس کے بعد وہ ایران کی بات کرتا ہے کہ اس کے پاس تیل کی طاقت موجود ہے لوکیشن ٹھیک ہے‘ لیکن شیعہ ہے اور عالم اسلام کی زیادہ تعداد سنی ہے اس لیے یہ ایک اس کا منفی پوائنٹ ہے۔ اس کے بعد وہ مصر کی بات کرتا ہے کہ اس کی آبادی کم ہے۔ الازہر یونیورسٹی کی وجہ سے اس کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اعلی اسلامی اور سائنسی تعلیم کا ادراک موجود ہے۔ امریکہ کے اثر میں ہے۔ ایک مرتبہ OIC سے اس کو نکالا بھی جا چکا ہے۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب کا ذکر کرتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے اس کا ایک خاص مقام ہے اور عالم اسلام میں اس کی قدر و منزلت ہے۔ سال میں ایک مرتبہ یہاں حج ہوتا ہے جہاں دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اس کی پاس سرمایہ بھی موجود ہے۔لیکن امریکہ سے اس کا تعلق منفی پوائنٹ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد Samuel Huntington ترکی کا ذکر کرتا ہے کہ تین چارسو سال خلافت عثمانیہ اس کے پاس رہی ہے۔ اسے عالم اسلام کا لیڈر بننے کا تجربہ ہے کہ انہیں کیسے سنبھالا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ملک بتدریج سیکولر ہو گیا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اسے یورپی یونین کا ممبر بنا لیا جائے۔ جب اسے وہاں سے مایوسی ہو گی تو یہ OIC کی طرف توجہ دے گا اور پھر اسے عالم اسلام کا لیڈر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہ ایک گورے کا تجزیہ ہے۔ ہو سکتا ہے کسی مسلمان اسکالر کا تجزیہ کچھ اور ہو اور وہ پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ مانتا ہو یا سعودی عرب میں یہ امکان دیکھتا ہو کہ اسلام کا سرچشمہ ہے اس لیے اس کی سربراہی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔
عالم اسلام کے ایک ایک فرد کی خواہش ہے کہ ہمیں کوئی اپنا حکم دے ہم کب تک دوسروں کے حکموں پر چلتے رہیں گے۔ یہ ایک خواب ہے۔ ایک سوچ ہے‘ ایک خواہش ہے کہ کوئی اسلامی ملک یہ کہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی فوجوں کو نکل جانا چاہیے۔ عراق کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا چاہیے۔ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور عالم اسلام ہی اسے حل کرے گا۔ یمن عراق اور شام کے مسائل ہم خود حل کریں گے ۔CPECعلاقے کی ضرورت ہے اور کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ اس راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالے ۔

ایک دن ایسا ضرور آئے گا کیونکہ اب ہم نے نقشوں کا مطالعہ کرنے سے آگے بڑھنا ہے۔ ایک قدم اٹھانا ہے‘ اپنی منزل کی طرف۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس نے ایک قدم اٹھایا وہ پہنچ گیا۔ ہمارے پاس لالٹین کی روشنی کم ہو سکتی ہے لیکن ایمان کی روشنی بہت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ اگر چڑیاں متحد ہو جائیں تو شیر کی کھال ادھیڑ سکتی ہیں۔ ہماری کتابیں‘ ہمارا ورثہ ‘ہمارے نقشے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان پر غور وخوض سے ہم پہنچ نہیں سکتے۔ اب ہم نے ان پر عمل کرنا ہے۔ ایک قدم منزل کی طرف اٹھانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں