مایوسی کیوں ہے؟ میرا کالم۔ اظہر نیاز

مایوسی کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے اور یہ کیسے آسمان سے اترتی ہے؟ کیسے دل پر اثر کرتی ہے؟ کیسے جسم کو قابو میں کرتی ہے؟ کیسے دماغ کو مفلوج کرتی ہے؟ ان سب کے نتیجے میں میں یہ تو جان جاتا ہوں کہ مایوسی کیا ہے لیکن اداسی مجھے گھیر لیتی ہے اور پھر میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ اداسی کیا ہے اور کیوں ہے؟
ہر صحت مند آدمی اداس ہوتا ہے ہر سوچنے سمجھنے والا آدمی اداس ہوتا ہے۔ اداسی آپ کے ہونے کا نام ہے جو آپ کو احساس دلاتی ہے کہ آپ ہیں۔ آپ کا وجود ہے۔ اس کائنات کا وجود ہے اور اس کائنات میں آپ اداس ہیں۔ تب یہ بات آپ کو سمجھ میں آتی ہے کہ جب آپ دنیا کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جان جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اداسی آتی ہے۔ اس طرح ایک جاننے والا شخص ہی اداس ہوتا ہے نہ جاننے والا اداس نہیں ہوتا۔ اس طرح ایک اچھے آدمی کو اداس ہونا چاہیے۔ اس کی اچھائی ہی ا سے اداس کرتی ہے۔
اب اچھائی کیا ہے؟ اچھائی ایک بارش کی طرح ہوتی ہے جو زمین کی گندگی کو دھو ڈالتی ہے۔ اچھائی ایک آنسو کی طرح ہوتی ہے جو آنکھوں کو باوضو تو کرتی ہی ہے اس کے ساتھ گناہوں کو بھی دھو ڈالتی ہے۔ اچھائی ایک عطار کی صحبت کی طرح ہوتی ہے۔ وہ خوشبو کہ آپ عطرخریدیں یا نہ خریدیں صرف عطار سے مل کر آپ سے آنے لگتی ہے۔ اچھائی ایک مسکراہٹ کی طرح ہوتی ہے جو دوست کو دیکھ کر آپ کے چہرے پہ آ جاتی ہے۔ میں چین کی کہاوت سے متفق نہیں ہوں کہ سب سے اچھے لوگ یا تو مر چکے ہیں یا ابھی پیدا ہونے ہیں۔ اچھے لوگ ابھی بھی آپ کو اپنے ارد گرد نظر آ جاتے ہیں۔ وہ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ سب سے اچھے۔ ہم اصل میں دیکھتے نہیں۔ ہم متقی لوگوں کی طرح نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلتے ہیں تو ادھر ادھر نہیں دیکھتے۔ سیدھے گھر آ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ مسجد اور گھر کے درمیان جو رستہ ہے وہ صاف ہے یا نہیں۔ اگر وہ گندا ہے تو وہ کس کی ذمہ داری ہے۔ کیا رستہ ہمارا نہیں ہے۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمارے ساتھ جو نمازی کھڑا ہے اس کے کپڑے کیسے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس نے کھانا کھایا ہو گا یا نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ایک شخص دو تین دنوں سے نماز پڑھنے نہیں آ رہا تو وہ کیوں نہیں آ رہا۔ ہمیں اس کی فکر ہی نہیں ہوتی۔ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ایسا کوئی شخص ہے بھی۔ کیونکہ ہم صرف اپنے خدا کو راضی کرنے کے لیے مسجد میںآتے ہیں۔ ہم متقی لوگ ہیں۔ ادھر ادھر نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے میں کیا ہو رہا ہے ۔ کوئی بیمار ہے۔ کوئی مر گیا ہے۔ کوئی خوش ہے۔ کوئی پیدا ہوا ہے۔ اپنے کام سے کام متقی لوگ‘ ہروقت اللہ کے ذکر سے دل آباد رکھنا۔ اللہ کے بندوں سے اجتناب کرنا۔ تو پھر ہمیں اچھے لوگ کہاں نظرآئیں گے۔ اچھائی کہاں دکھائی دے گی۔ جب اچھائی دکھائی نہیں دیتی تو اداسی دکھائی دیتی ہے۔ اور اداسی اپنے ساتھ مایوسی لاتی ہے۔
اداسی ایک روحانی بیماری ہے لیکن اس روحانی بیماری کے بطن سے پیدا ہونے والی مایوسی بیماری نہیں گناہ ہے۔ ہم جس طرح اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اسی طرح ہمیں توبہ کرنا چاہیے کہ یا اللہ ہمیں معاف کر دے کہ ہم مایوسی کا شکار ہیں۔ اللہ کو گناہ گار پسند ہیں وہ گناہ گار جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ توبہ کرتے ہیں۔ گڑگڑاتے ہیں۔ معافی مانگتے ہیں۔ سجدے میں گرے رہتے ہیں۔ اپنی کروٹیں راتوں کو بستروں سے الگ رکھتے ہیں۔
مایوسی کی دوسری سمت امید ہے۔ جو اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے وہی مایوس ہوتا ہے۔ ایسا مایوس اللہ کی رحمت کا انکاری کبھی توبہ بھی نہیں کرتا۔ کیونکہ اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ نماز روزہ حج زکوۃ ہم سے رہ جائے تو ہم ادا بھی کرتے ہیں اور توبہ بھی کرتے ہیں۔ یا اللہ مجھ سے خطا ہو گئی۔ تو مجھے معاف کر دے۔ تیری توفیق کے بغیر میں بر وقت نماز ادا نہیں کر سکتا اور اچھی نماز بھی تیری قوفیق کے بغیر ادا نہیں کر سکتا۔ یااللہ مجھ سے روزہ رہ گیا۔ یا اللہ مجھے معاف کر تیری توفیق کے بغیر میں روزے نہیں رکھ سکتا۔ یا اللہ میری توبہ قبول کر اور مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری عبادت کر سکوں۔ فرائض ادا کر سکوں۔ لیکن ہم سب کے سب کبھی خدا کے سامنے اس طرح نہیں گڑگڑاتے کہ میرے مالک ہم مایوس ہوئے تیری رحمت کے منکر ہوئے ہمیں معاف کر دے۔
ہم نے یہ سوچا کہ ہمارا مستقبل ہمارے ملک کا مستقبل ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یا اللہ تو ہمیں معاف کر دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ تیری توفیق کے بغیر ہم مایوسی کے گڑھوں سے نہیں نکل سکتے۔ یا اللہ ہمیں معاف کر دے کہ ہم نے تیری طرف رجوع کرنے کی بجائے خواص کو اس ملک کا نجات دہندہ سمجھ لیا۔ یا اللہ ہمیں معاف کر اور ہمارے پیارے ملک کو آفتوں سے نجات دے۔ اور یہ نجات تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ یا اللہ ہماری توبہ قبول فرما۔ آئیں ہم سب ماہ رمضان سے پہلے اپنی مایوسی کی معافی مانگ لیں۔ اپنی اداسیوں کی معافی مانگ لیں تا کہ ماہ رمضان کو ایک بھرپور خوشی کے ساتھ خوش آمدید کہہ سکیں اور زندہ دلی سے مزے سے روزے رکھ سکیں۔
جب ہم سب اپنی مایوسیوں کی اللہ سے صدق دل سے معافی مانگ لیں گے تو اللہ تعالی ماہ شعبان کے دوران اور ماہ رمضان کے دوران اپنی رحمتوں کی بارش کر دے گا۔ ہم پر بھی اور اس ملک پر بھی۔
میں اس ماہ شعبان سے اتنا پرامید ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ماہ رمضان میں مانگی جانے والی دعاؤں کے عوض ہم سب سازشوں سے نجات پا جائیں گے۔ انشاء اللہ بس ایک کام آپ نے پورے شعبان اور رمضان میں کرنا ہے کہ مایوس نہیں ہونا اور سابقہ مایوسیوں کی اللہ سے توبہ کرنی ہے اور اس ملک کی سلامتی کے لیے دعا کرنی ہے۔ آسانیاں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں