لوڈ شیڈنگ کے فوائد میرا کالم۔ اظہر نیاز

1970 ء کی بات ہے۔ میرے گاؤں میں بجلی آ چکی تھی۔ میٹرک رحیم یار خان سے کرنے کے بعد میں نے کراچی سندھ مدرسہ کالج میں داخلہ لیا۔ ہوسٹل میں رہتا تھا۔ عید شبرات پر گھر آتا۔ ایک دفعہ عید کی چھٹیوں کے بعد کراچی جا رہا تھا۔ میرا ہم سفر بھارت سے پاکستان آیا ہوا ایک خاندان تھا۔ وہ لوگ ایک پاکستانی خاندان سے بات چیت کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کے ہاں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ پاکستانی نوجوان نے کہا وہ کیا ہوتی ہے؟ بھارتی خاتون نے ہنس کر کہا کہ آپ کے ملک نے ترقی بھی تو نہیں کی۔ آپ کیا جانو لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے۔
میں بڑے انہماک سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ میں نے بھی یہ لفظ پہلی دفعہ سنا تھا۔ بجلی کے حوالے سے میری معلومات صرف اتنی تھیں کہ ان دنوں پنجاب کے دیہاتوں کو بجلی ملنا مشکل تھی۔ البتہ زرعی مقاصد کے لیے ٹیوب ویل لگانا ہو تو فوراً بجلی مل جاتی تھی۔ ہمارے گاؤں میں بھی بجلی اسی طرح آئی تھی کہ میرے باپ نے سوچا کہ ٹیوب ویل کے لیے بجلی لے لیتے ہیں۔ جب ٹیوب ویل کے لی بجلی مل گئی تو بجلی والوں سے کہا گیا کہ اب تو بجلی گاؤں کے پاس آ گئی ہے۔ اس لیے گاؤں کو بھی دے دو۔ اس طرح میرے گاؤں کو بھی بجلی مل گئی۔ میں نے تاروں کا ایک جال سا بنا کر اس میں کاغذ پھنسا کر ایک ٹیبل لیمپ بلکہ چارپائی لیمپ ایجاد کیا تھا اور اس کی روشنی میں گھر کی چھت پر بیٹھ کر بلکہ چارپائی پر لیٹ کر پڑھا کرتا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی بجلی نے اس چارپائی لیمپ سے بے وفائی کی ہو۔
لوڈ شیڈنگ کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے میں پھر خاتون کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ لوڈشیڈنگ دراصل لوڈ شیئرنگ کا دوسرا نام ہے۔ بھارت میں صنعتی ترقی ہوئی ہے تو بجلی کم پڑ گئی ہے تو وہاں کیا کیا جاتا ہے کہ صنعتوں کو بجلی پورا کرنے کے لیے گھروں کی بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ اس طرح روزانہ دو دو تین تین گھنٹے مختلف علاقوں میں بجلی نہیں آتی۔ اس کو لوڈ شیڈنگ کہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ پاکستان مغرب سے کوئی سو برس پیچھے ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم بھارت سے چالیس برس پیچھے ہیں۔ بھارت جہاں چالیس برس پہلے تھا ہم اب وہاں پہنچے ہیں۔ جناب پرویز مشرف نے ٹیلی وژن پر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ کی وجہ صنعتی ترقی اور خوشحالی ہے۔ ملک میں صنعتی ترقی ہوئی ہے بے شمار صنعتیں لگی ہیں۔ ان کو بجلی کی ضرورت ہے۔ اس طرح ملک میں آبادی میں اضافہ ہوا ہے نئے گھر تعمیر ہوئے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات کہ ملک میں خوشحالی آئی ہے جہاں ایک AC ہوتا تھا وہاں تین تین چار چار اے سی لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بجلی کا بحران آیا ہے۔ یہ سب ترقی کے ثمرات ہیں۔
اس وقت اس بھارتی عورت کے کہنے پر سب نے یقین کر لیا کیونکہ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے سب میٹرک پاس لوگ تھے۔ لیکن جناب مشرف کے سامنے بیٹھے ہوئے صحافی اور ٹیلی وژن دیکھنے والے ناظرین نے یقین کرنے کی بجائے اس پر گفتگو شروع کر دی کہ کیا حکومت کو اتنا بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اگلے پانچ برسوں میں ضروریات کس رفتار سے بڑھیں گی۔ میڈیا چونکہ آزاد ہے اور تب ہی میں یہ سب کچھ لکھنے کی جرات بھی کر رہا ہوں ورنہ چوبیس گھنٹے بھی بجلی نہ آئے تو لوگ ایک لفظ منہ سے نہیں نکالیں گے۔ اس کی ایک وجہ بے حسی ہے اور دوسرا خوفِ خدا۔ بات دور نکل جائے گی کہ میڈیا کی آزادی‘ مشرف صاحب کی بات سے اختلاف اور خوفِ خدا کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ مختصراً عرض کرتا ہوں کہ ابنِ خلدون نے کہا ہے کہ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی حکمرانِ وقت کی مخالفت میں عوامی احتجاج سامنے آیا فائدہ کافروں کو پہنچا۔ اس لیے میں ابنِ خلدون کے ساتھ ہوں۔ ابنِ خلدون کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مجھے لوڈشیڈنگ کے کچھ فوائد بھی بیان کرنا پڑیں گے۔ سو حاضر ہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ بجلی کا بل کم آتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں اس سے بڑا فائدہ کیا ہو سکتا ہے۔ پنجاب کے کئی دیہاتوں میں چوبیس چوبیس گھنٹے بجلی نہیں آتی۔ اس طرح وہ ایک بڑے بل سے بچ جاتے ہیں۔ بجلی ہوتی ہے تو اے سی چل رہے ہیں‘ کچن میں کئی طرح مشینیں آن ہو جاتی ہیں۔ پنکھے اور کولر کو آرام نہیں۔ شہروں میں بھی لوگوں نے UPS اور جنریٹر لگا لیے ہیں۔ بجلی کا بل کم ہو گیا ہے۔ اب UPS کو ہی لے لیں۔ اس کے بنانے والے اور بیچنے والے لوڈشیڈنگ سے اتنے خوش ہیں کہ ان کی خوشی کا کوئی شمار نہیں۔ اور تو اور اس کی مانگ کو پور ا کرنے کے لیے باہر سے درآمد کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ایک تو خوشحالی ہے۔ عوام کے پاس پیسہ بہت ہے تو وہ امپورٹڈ اشیاء خریدتے ہیں۔ اس طرح درآمد شدہ UPS خرید کر آپ کی شان میں اضافہ ہوتا ہے۔
موم بتی بنانے والوں سے لوڈشیڈنگ کا فائدہ پوچھیں۔ وہ موم بتی جو دس روپے کی ملتی تھی اب 45 روپے کی ہو گئی ہے۔ موم بتی کی صنعت جو گھریلو صنعت سمجھی جاتی تھی اب ایک بڑی صنعت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اب جب ہر گھر میں موم بتی کی روشنی ہے تو تب کہیں جا کر مجھے اس پنجابی گیت کی سمجھ آئی ہے:
ماں دیے موم بتیئے سارے پنڈ وچ چانن تیرا
(اے ماں کی موم بتی سارے گاؤں میں تیرا ہی اجالا ہے)
اس لوڈشیڈنگ سے نا صرف شعری شعور میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ثقافت کو سمجھنے میں آسانیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ پہلے کیا ہوتا تھا ٹیلی وژن لگا ہوا ہے اور سب مل کر ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ اگر کوئی مہمان آتا تو وہ بھی مل کر ٹی وی دیکھنے لگتا اب لوڈشیڈنگ کی وجہ سے موم بتی کی روشنی میں گفتگو ہوتی ہے۔ آپس میں تعلقات بڑھتے ہیں۔ بڑوں سے کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ چھوٹوں کے مسائل جاننے کا وقت ملتا ہے۔ اسکول کالج‘ گھر اور معاشرہ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور آپ کوتو معلوم ہے ڈائیلاگ زندگی کی علامت ہے‘ مکالمہ گرہیں کھولتا ہے۔
میری بیٹی نے ایک دن مجھے گھر آتے ہی خبر سنائی کہ بابا میں نے ماچس جلانا سیکھ لی ہے۔ اب وہ انتظار کرتی ہے کہ
لوڈشیڈنگ ہو اور وہ موم بتی روشن کرے۔ موم بتی جلاتے ہوئے اس کی احتیاطی تدابیر کو دیکھ کر میں سارے دن کی تھکن بھول جاتا ہوں۔ پھر ہم موم بتی کی روشنی میں ڈنر کرتے ہیں۔یہ عیاشی پہلے صرف امراء کو حاصل تھی اب پورا پاکستان روزانہ کینڈل لائٹ ڈنر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
بچے لوڈشیڈنگ سے ایک اور طرح بھی محظوظ ہوتے ہیں وہ موم بتی کی روشنی میں دیواروں پر ہاتھوں کے سائے بناتے ہیں۔ سائے سے بنے یہ ہرن‘ پرندے‘ شترمرغ‘ جب باتیں کرتے ہیں تو ایک اچھا خاصا Puppet Show کا اہتمام ہو جاتا ہے۔یہ تفریح لوڈشیڈنگ کے بغیر کیسے ممکن تھی۔
لوڈشیڈنگ سے پاکستانی صبر و تحمل اور بردباری سے کام لینا شروع ہو گئے ہیں۔ اب بجلی نہیں ہے تو نہیں ہے۔ بچوں کو سمجھایا جا رہا ہے۔ بچے جب نہیں سمجھتے اور ضد کرتے ہیں کہ جی نہیں ہم نے چپس کھانی ہے اور ابھی کھانی ہے تو ماں اس کو دیگر طریقوں سے بہلانے کی کوشش کرتی ہے جب کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ضد کرنے والے بچوں کو دو چار تھپڑ پڑ جاتے تھے۔ اب میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے اور مطابقت پیدا کرنے کے طریقے سیکھے جا رہے ہیں اور ان سے کام لیا جا رہا ہے۔
میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔ دفتر میں جب لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو وہ تسبیح نکال کر ایک طرف بیٹھ جاتا ہے اور پورا ایک گھنٹہ اللہ کی یاد میں گزارتا ہے۔ اور اللہ کا ذکر فارغ بیٹھنے سے کہیں افضل ہے۔ وہ دفاتر جو UPS یا جنریٹر کے متحمل نہیں وہ لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے جذبات شیئر کرتے ہیں جس سے دفتر کے ماحول میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ گلے شکوے دور ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے لوگ دفتر سے باہر نکل جاتے ہیں کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ اس طرح انہیں ایک ایسا موقع فراہم ہو جاتا ہے جو ان کی صحت پر اچھا اور خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ جس سے صحت اچھی ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ صحت اچھی ہو گی تو جسم تندرست ہو گا اور تندرست جسم میں ہی تندرست دماغ ہوتا ہے۔ گویا لوڈشیڈنگ پاکستانی قوم کے جسم اور دماغ کو توانا بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اور مجموعی طور پر من حیث القوم افراد مثبت سوچوں کے امین بنتے جا رہے ہیں ۔
لوڈشیڈنگ نے گھر گھر خوشیاں پھیلا دی ہیں۔ جب لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی آتی ہے تو بچے بوڑھے سب مل کر نعرہ لگاتے ہیں۔ بجلی آ گئی۔ اس وقت ان کے چہرے دیدنی ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم پاکستانی جو پابندی وقت کے نام پر بدنام ہیں وقت کے پابند ہوتے جا رہے ہیں۔ بجلی ٹھیک وقت پر جاتی ہے ایک سیکنڈ اوپر نیچے نہیں ہوتی۔ اس طرح سارے کام وقت پر کرنے پڑتے ہیں۔ بجلی چلی جائے گی کپڑے استری کر لو‘ بجلی چلی جائے گی کھانا پکا لو‘ بجلی چلی جائے گی‘ شیو کر لو‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہر کام وقت پر ہو رہا ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی پوری دنیا میں پاکستانی قوم وقت کی پابندی کی وجہ سے معروف ہو گی کہ وقت کی پابندی سیکھنی ہو تو پاکستانی قوم سے سیکھیے۔ کم از کم ہم نے اپنی گھڑیاں تو لوڈشیڈنگ کے ساتھ ملانی شروع کر دی ہیں۔ بجلی چلی گئی ۔ٹھیک ہے سات بجے ہوں ۔گھڑی درست کر لو۔
کیا یہ سب لوڈشیڈنگ کے فوائد نہیں‘ اور پھر حضرت ابوبکر شبلیؒ کا یہ قول مجھے اندھیرے کا احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ جس دل میں اللہ رہتا ہو اس کو کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں۔
میں مثبت سوچیں رکھنے والا سفید پوش آدمی ہوں۔ جو مجھ سے غریب ہیں ان کی زندگی کا مقصد اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ ان کو
دیکھ کر ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔ مثبت سوچوں کا مطلب میں نے یہ لیا ہے کہ اگر گلاس آدھا خالی یا آدھا بھرا ہوا ہو تو اسے آدھا خالی کہنے کی بجائے آدھا بھرا ہوا کہا جائے۔ آدھا بھرا کہنے سے گلاس تو آدھا ہی رہے گا۔ البتہ لوگ آپ کو مثبت سوچوں والا شخص کہیں گے۔ آپ کا پیٹ خالی ہو‘ کئی دن کا فاقہ ہو اور آپ کہیں کہ اللہ کا شکر ہے۔ اور بھوک چھپانے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ بھی رکھیں تو لوگ آپ کو صابر شاکر اور اللہ کی رضا پر راضی شخص کہیں گے۔ اور بقول واصف علی واصف ’’اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے‘‘۔ اسی طرح مثبت سوچوں کا امین شخص اپنے لیے خوشی کی کئی تعریفیں بناتا ہے اور تلاش کرتا ہے اور اس میں نہادھو کر اور صبر و استقامت کے نئے کپڑے پہن کر رزق کی تلاش میں نہیں نکلتا ہے اور شام کو مثبت سوچوں سے جھولی بھر کر گھر لوٹ آتا ہے۔ ان ہی مثبت سوچوں کو وہ اپنی بیوی کے پلو میں دیتا ہے۔ وہ ان مثبت سوچوں کو ہنڈیا میں ڈالتی ہے‘ پانی کم ہو تو آنسوؤں سے ہنڈیا بھر جاتی ہے۔ کم سے کم کچھ نہ کچھ پکنے کی آواز اس گھر سے آتی ہے۔ یہ مثبت سوچیں خالی ہنڈیا میں رونے کی آواز میں ڈھل جاتی ہیں جس سے بچوں کے رونے کی آوازیں کم ہو جاتی ہیں۔ ہم سو دو سو برس نہیں چودہ سو برس پیچھے ہیں لیکن کوئی عمر اس گلی سے نہیں گزرے گا کہ پوچھے بچے کیوں رو رہے ہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں