نہیں کہ اس سے تعلق کو توڑ آئے ہیں.. خالد محمود ذکی

نہیں کہ اس سے تعلق کو توڑ آئے ہیں

کہ رک رہا تھا سو دریا کو موڑ آئے ہیں

وہی گلی تھی مگر جانے کیوں خیال آیا

کہ اس گلی کو کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں

کوئی اثر ہے کہیں اس پہ ، رونے دھونے کا

یہ کس کے آگے ہم آنکھوں کو پھوڑ آئے ہیں

شکستگی سی کہیں ساز میں ابھی تک ہے

اگرچہ تارِ شکستہ بھی جوڑ آئے ہیں

یہ دیکھنا تھا کہ منزل کے اس طرف کیا ہے

وہ جستجو تھی کہ منزل کو چھوڑ آئے ہیں

وہیں ملے ہیں خرابے ہمیں تمنا کے

جہاں کہیں ترے رستے میں موڑ آئے ہیں

…………………………… خالد محمود ذکی

اپنا تبصرہ بھیجیں