‘زائرین کا تانتا بندھا تو انتظامات خود بخود ہو جائیں گے’

نقشے پر دیکھیں تو بھارت کے ضلع گرداس پور میں بابا ڈیرہ نانک اور پاکستان کے سرحدی علاقے شکر گڑھ کے گاوں کوٹھا پنڈ میں واقع دربار صاحب کرتار پور میں صرف سات کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن اس فاصلے کو ختم کرنے میں سات دہائیاں بیت گئیں۔

گردوارہ دربار صاحب بابا گرو نانک کی آخری رہائش گاہ ہے۔ تاریخ کے مطابق گرو نانک نے سن 1522 میں کرتار پور کو آباد کیا انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں گزارے بلکہ یہاں رہ کر کھیتی باڑی بھی کی اور یہیں ان کا نتقال ہوا۔
دربار صاحب کرتار پور سے تھوڑے فاصلے پر نالہ بئیں اور اُس کے آگے دریائے راوی سے پار بھارت کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ کالم نگار اسلم خان کے مطابق کرتار پور کو سکھ برادری کے لئے آزاد علاقہ بنانے کا خواب سب سے پہلے شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور بزرگ سیاستدان انور عزیز چوہدری نے دیکھا تھا۔ وہ اُنیس سو ساٹھ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران کئی بار رُکن قومی اسمبلی مُنتخب ہوئے اور کوشش بھی کرتے رہے لیکن یہ خواب ہی رہا اور پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں نے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ چراغ روشن تو ہوا بھلے اُسے جلانے والے ہاتھ کسی کے بھی ہوں۔

باقاعدہ طور پر کرتار پور پر راہداری بنانے کی تجویز پر عمل اُنیس سو اٹھانوے میں اس وقت کیا گیا تھا جب بھارتی وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی دعوت پر لاہو آئے۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دریا کے ایک مُقام پر پتھر رکھ کر پگڈنڈی بنانے کا کام بھی شروع ہو گیا تھا، لیکن اس کے بعد کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ دربار صاحب کرتار پور کے گرنتھی گووند سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سکھوں اور اُنکی عبادت گاہوں کو بُہت عزت دی جاتی ہے، اور اُنہیں پاکستان کے کسی بھی حُکمران کی جانب سے کبھی کسی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور موجودہ حکومت کے اقدام نے دُنیا بھر کے سکھوں کے دل جیت لئے ہیں۔ مسئلہ صرف بھارت کی جانب سے تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کرتار پور صاحب دربار کا رقبہ ننکانہ صاحب گردوارے جتنا بڑا تو نہیں لیکن ایک بار سکھ زائرین کے آنے کا تانتا تو بندھے، انتظامات بھی خود بخود ہو جائیں گے اور جیسا کہ پاکستانیوں کہ دل بڑے ہوتے ہیں تو ہم زائرین کی بڑی تعداد کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔

ناروال سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اور پاکستان سکھ پربندھک کمیٹی کے ممبر رامیش سنگھ اروڑا کا کہنا ہے کہ یہ گردوارہ بین المذہبی ہم آہنگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے، یہاں سکھ ہی نہیں مُسلمان بھی آتے ہیں اور عیسائی بھی اور اپنے اپنے طریقے سے دُعائیں مانگتے ہیں، عبادت کرتے ہیں۔ پاکستان نے تو ہمیشہ راہداری بنانے کی حمایت کی لیکن بھارت سے انتہا پسند لوگوں نے ہمیشہ اسکی مخالفت کی۔ لیکن بالاآخر مُثبت سوچ رکھنے والوں کی جیت ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اب چونکہ راہداری بننے جا رہی ہے تو اس جگہ کا حدود و رقبہ بڑھانے کی ضرورت ہے، نئے کمرے اور ہال تعمیر کئے جانے کی ضرورت بھی پڑے گی۔ اُنہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ حکومت سے اُنہوں نے اس گردوارے کی بحالی کے لئے فنڈز بھی منظور کرائے تھے، جس کے بعد تعمیراتی کام شروع ہوگیا تھا تو اس لئے وہ موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ بحالی منصوبہ جاری رکھیں۔

ضلع نارووال کے ڈسٹرکٹ چئیرمین احمد اقبال نے بتایا کہ راہداری کھولنے کی جو بات چل نکلی ہے اس سے مُقامی نمائندے اور لوگ پراُمید ہیں کہ اس سے مذہبی سیاحت کو فروغ ملے گا، نیا انفراسٹرکچر بنے گا تو روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ لیکن ابھی تو سب باتیں ہوا میں ہیں، منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں وقت لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن دونوں مُلکوں میں اگر محبت کا بیج بونے میں نارووال کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو ہمارے لئے یہ اعزاز کی بات ہوگی۔

کرتار پور صاحب راہداری کے باقاعدہ افتتاح کے بعد یہ گردوارہ دُنیا بھر سے سکھ زائرین کی آمد کا مُنتظر ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے مُحبت کا یہ پیغام سرحد پار سوچ اور جذبات کی تبدیلی کا آغاز ثابت ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں