اسلام آباد میں 75 فیصد طالبات منشیات استعمال کرتی ہیں ؟

وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے اپنے حالیہ بیان میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود سکولوں کے بارے میں کہا کہ ان کی 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔

انسدادِ منشیات کے محکمے کے انچارج وزیر کے اس بیان پر انھیں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بیشتر ماہرین تعلیم اور انسدادِ منشیات ان کے پیش کردہ اعدادوشمار کو درست تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

شہریار آفریدی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے پاس موجود معلومات کی بنیاد ’پاکستان میں کرایا جانے والا ایک سروے ہے‘ لیکن اس سروے کا نام کیا ہے اور یہ کس ادارے نے کروایا ہے اس بارے میں نہ تو اپنی تقریر میں انھوں نے کوئی حوالہ دیا اور نہ ہی بی بی سی کے کئی مرتبہ رابطہ کرنے پر ان کے یا ان کی وزارت کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب مل سکا۔

بی بی سی نے اس تنازعے کے بعد اسلام آباد کے مختلف سکولوں میں طلبہ اور انتظامیہ کے علاوہ بعض ماہرین تعلیم سے بھی بات کی تو معلوم ہوا کہ جہاں وزیر مملکت برائے داخلہ کے اعدادوشمار کا مستند حوالہ موجود نہیں وہیں اسلام آباد کے سکولوں میں منشیات کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان بھی موجود ہے۔

وزیرِ مملکت کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد اس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی جانب سے ردعمل سامنے آیا جن میں سے کچھ تو اس پر تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیے تو ایک بڑی تعداد کو اس کی صداقت پر شک رہا۔

وزیرِ مملکت کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں کہا کہ اصل میں 75 فیصد طالبات منشیات استعمال نہیں کرتیں بلکہ ان کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی کے مراکز چلانے والے ڈاکٹر صداقت علی نے نجی ٹی وی چینل جیو کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے نہ صرف شہریار آفریدی کے اس بیان پر تنقید کی بلکہ اس کی تردید بھی کی۔

انھوں نے کہا کہ اتنے بڑے اعداد و شمار دینے کے پیچھے کوئی صداقت نہیں ہے۔ ’ایسا تو نیو یارک کے بدترین علاقوں میں بھی نہیں ہوتا جہاں منشیات کی شرح بہت زیادہ ہے۔‘

سابق وزیرِ داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے بھی اپنے ایک بیان میں شہریار آفریدی کے بیان پر تشویش ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارتِ داخلہ اسلام آباد میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے حوالے سے سینیٹ کی کمیٹی کو مفصل رپورٹ جمع کروائیں۔
سکولوں میں منشیات کے استعمال کے بارے میں اعدادوشمار کہاں سے آئے؟

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسلام آباد کے سکولوں میں منشیات کے استعمال کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

اس حوالے سے اکتوبر 2016 میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں ساؤتھ ایشیئن سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ (سیسی) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کے 40 تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے 400 طلبہ و طالبات نشہ کرتے ہیں۔

ان تعلیمی اداروں میں اکثریت پرائیویٹ سکولوں کی بتائی گئی جہاں نشہ کرنے والے طالبعلموں کی شرح 53 فیصد بتائی گئی جبکہ حکومتی سکولوں میں یہ شرح صرف دو فیصد بتائی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں چھ طرح کی منشیات کا نام لیا گیا ہے جس میں آئس یا کرسٹل میتھ، ہیروئن، زینیکس، او پی آئی اور بھنگ شامل ہیں۔

اس رپورٹ کا صوبائی اسمبلی میں کئی بار حوالہ دیا گیا اور رواں سال مئی کے مہینے میں بھی اس پر بحث کی گئی جس میں طالبعلموں کے ڈرگ ٹیسٹ کروانے کے حوالے سے بھی بات کی گئی، لیکن ان تجاویز کا کیا بنا اس کا جواب متعلقہ ادارے دینے سے قاصر ہیں۔

سیسی کی ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل وہ ’نارکوٹکس جہاد‘ پر مبنی ایک رپورٹ پر کام کر رہی تھیں جس میں سنہ 1980 سے لے کر سنہ 1990 تک افغانستان کے راستے پاکستان میں منشیات کی آمد اس رپورٹ کی بنیاد تھی۔ اور اسی کے دوران ان کو یہ شواہد ملے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سکولوں میں منشیات کی لت پر مبنی رپورٹ دراصل ایک پائلٹ تحقیق کا حصہ ہے جس میں ہم نے 40 سے زائد سکولوں میں پڑھنے والے 400 بچوں سے بات کی۔ ہمیں لگا کہ یہ نتائج حیرت انگیز ہیں جس کے بعد ہم نے یہ نتائج سینیٹ میں جمع کرائے۔‘

لیکن انھوں نے بی بی سی کو رپورٹ دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس میں بہت سارے بچوں کی شناخت پوشیدہ ہے جس کو وہ سامنے نہیں لانا چاہتیں۔

انھوں نے بتایا کہ بچوں میں منشیات کے استعمال کی فراوانی کی ایک بڑی وجہ اس تک آسان رسائی ہے۔ ’اس میں انتطامیہ کی طرف سے بھی کوتاہیاں دیکھیں گئی ہیں۔ ملک میں موجود منشیات پر بننے والے قانون کی اگر پیروی کی جائے اور اس کی بنیاد پر سکولوں میں بھی آگاہی دی جائے تو خاصہ فرق پڑسکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار کم ہو سکتے ہیں۔‘
انتظامیہ کیا کررہی ہے؟

اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ کی کارروائی میں اب تک دس منشیات فروش پکڑے جا چکے ہیں جن کا تعلق کہیں نہ کہیں سکولوں میں منشیات بیچنے سے بھی رہ چکا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی وزیرِ اعظم کے کہنے پر شروع کی گئی تھی جن میں اب تک بارہ کہو، تھانہ کھنہ کا علاقہ، کورال اور ترنول میں گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔

انھوں نےبتایا کہ بخت منیر نام کا ایک منشیات فروش بھی گرفتار کیا گیا ہے جو پولیس کو سکولوں میں منشیات فراہم کرنے کے جرم میں کافی عرصے سے مطلوب تھا۔

اسی حوالے سے انسپیکٹر جنرل عامر ذوالفقار خان نے جنوری کے دوسرے ہفتے میں پرائیوٹ سکولوں اور والدین کے لیے ایچ 11 پولیس لائن میں ایک سیمینار منعقد کیا ہے۔ ’ہماری کوشش یہ ہے کہ اس بارے میں جتنی آگاہی والدین اور سکولوں کو دے سکیں اتنی دے دیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہیش ٹیگ ’ڈرگز فری اسلام آباد‘ کے ساتھ منشیات سے منسلک آگاہی دی جا رہی ہے، اور پچھلے دو ہفتوں میں والدین، اساتذہ اور پرائیویٹ سکولوں کے ترجمانوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں رکھی گئی ہیں۔

لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ سکولوں میں سیمینار کرانے کے بعد کیا شواہد ملے اور کیا وہ شواہد موجودہ رپورٹوں کی عکاسی کرتے ہیں؟ تو اس پر انھوں نے کہا کہ ’اتنی تگ و دو کے پیچھے کوئی نہ کوئی رپورٹ ضرور شامل ہوگی۔ ہم اپنے حکومتی اداروں کے بیان کی نفی نہیں کرسکتے۔‘

روٹس میلینیئم سکول کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن سبینہ ذاکر نے کہا کہ اب تک سکولوں میں منشیات کے حوالے سے کئی بار انسپکٹر جنرل پولیس اور پارلیمانی ارکان کے ساتھ میٹنگ ہو چکی ہیں۔ ’لیکن ان ملاقاتوں میں ایک بار بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بیانات اب تک سطحی بنیاد پر دیے جا رہے ہیں جس کا حقیقت سے تب تعلق بنے گا جب ٹھوس شواہد پیش کیے جائیں گے۔ ہم اپنے بچوں سے بات کرنے کو تیار ہیں اور اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو یہ جانچنے کو بھی تیار ہیں کہ منشیات کی طرف راغب ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ لیکن پہلے ہمیں یقین دلایا جائے کہ یہ صرف بیان بازی نہیں بلکہ سچ ہے۔‘

منشیات کے استعمال کی بات کچھ غلط بھی نہیں
اس بارے میں اسلام آباد کے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والی چند طالبات نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

ایک پرائیویٹ سکول کی ایک طالبہ نے کہا کہ ’اب تک ہمیں صرف بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، لیکن یہ مسئلہ کیا ہے اور کیوں ہے یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہ رہا۔ منشیات کے استعمال پر بات چیت بہت سطحی ہوتی ہے جس کا اکثر سچائی سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا۔‘

ان کے ساتھ موجود ایک اور طالبہ نے کہا کہ ’ہمارے والدین اور اساتذہ منشیات کے کسی بھی طرح کے استعمال کو مکمل طور پر غلط ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کبھی کبھار اس سے مدد بھی ملتی ہے۔‘

اسی بارے میں اے لیول کے ایک طالبعلم نے کہا کہ ان کے سکول میں بہت سے ایسے بچے ہیں جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ ’یہ میرے سامنے اتنی بڑی بات اس لیے نہیں ہے کیونکہ ان کے استعمال کی سب سے بڑی وجہ پریشانی ہے۔

’میرے آس پاس بہت سے بچے ذہنی امراض کا بھی شکار رہتے ہیں اور اس صورتحال میں کچھ منشیات ایسی ہیں جو ان کو روز صبح گھر سے باہر نکلنے اور دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے لیے تیار کرتی ہیں۔‘
او لیول کی ایک طالبہ نے کہا کہ ’آئس کا نشہ میں نے نہیں کیا کیونکہ میں کرسٹل میتھ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی لیکن میں نے موڈ بہتر کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کیا ہے جن کو ’اپر‘ بھی کہا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ بات اگر میں اپنے والدین سے کروں گی تو وہ شاید نہ سمجھیں لیکن میری زندگی کے لیے یہ منشیات اہم ہیں، اور مجھے ایسا کہنے میں قباحت اس لیے نہیں ہے کیونکہ اس کا دوسرا حل خودکشی ہے، جو میں نہیں کرنا چاہتی۔‘

ایک اور طالبعلم کا کہنا تھا کہ ’مجھے اگر منشیات سے منسلک آگاہی چاہیے بھی ہوگی تو وہ اس بارے میں ہو گی کہ کتنی مقدار میں استعمال کی جائے تاکہ جان نہ چلی جائے۔ میں نے امتحانات کے دوران نیند کی گولیاں بھی کھائی ہیں تاکہ دماغ سکون میں رہے لیکن نیند نہ آنے پر شراب کا استعمال بھی کیا ہے۔ لیکن مجھے بذاتِ خود اس کی عادت نہیں ہے۔‘

ایک اور طالبہ نے کہا کہ ان کے لیے منشیات کا استعمال عارضی ہے۔ ’میں پریشانی کے دوران، امتحانات کے دوران اور کسی پراجیکٹ کی تیاری کرتے ہوئے منشیات کا استعمال کرتی ہوں۔ لیکن یہ استعمال عارضی ہے۔ مجھے بس یہ ڈر ہے کہ کہیں اس کی عادت نہ لگے۔‘

ان تمام طالبعلموں نے بتایا کہ ان کے سکولوں میں کسی ڈیلر کے بجائے اکثر دوستوں کے ذریعے منشیات لائی جاتی ہیں، جو ان کو کسی منشیات فروش سے ملتی ہیں۔
کیا حتمی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا منشیات کے استعمال کی صورتحال وہی ہے جس کا دعویٰ وزیرِ مملکت کر رہے ہیں یعنی کہ اسلام آباد میں سکولوں کی چار میں سے تین طالبات منشیات استعمال کرتی ہیں؟

’سیسی‘ کی رپورٹ میں ایک واضح مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک پائلٹ تحقیق ہے اور اسے زمینی حقائق کا ترجمان نہیں مانا جا سکتا۔

جب ماریہ سلطان سے پوچھا گیا کہ کیا ایک پائلٹ تحقیق زمینی حقائق کی ترجمانی کرسکتی ہے تو انھوں نے جواب میں کہا کہ اس موضوع پر اب بھی بہت تحقیق کی جا سکتی ہے تاہم وہ اپنی اس رپورٹ پر اٹھنے والے ہر سوال اور تنقید کا جواب دیں گی کیونکہ یہ تحقیق ’سچ‘ پر مبنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں