عمران خان کی تقریر ، کیا جواب معذرت خواہانہ تھا؟

واشنگٹن —
پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پرگردش کرنے والے بعض تشویشناک بیانات ، دھمکیاں اور نقص امن کے خدشات کے پیش نظر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا بدھ کی رات قوم سے خطاب اور یہ دو ٹوک بیان کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا، پاکستان اور پاکستان سے باہر موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین اس تمام معاملے کو پاکستان کی تیس سالہ تاریخ کا ایک حیران کن اور غیر متوقع موڑ قرار دے رہے ہیں ۔۔وہیں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی دو مہینے پرانی حکومت اتنے حساس معاملے پر وزیر اعظم عمران خان کے بقول،ایک چھوٹے سے گروپ کے ردعمل کو برداشت کر پائے گی؟

وائس آف امریکہ اردو کے پروگرام جہاں رنگ میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پہلی بار ایسا لگا کہ ریاست نے اس معاملے کو ہینڈل کرنے لئے معذرت خواہانہ رویے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کی۔

’’وزیراعظم کا آج کا بیان خوش آئند ہے کہ ریاست اپنے لوگوں کی حفاظت کے فرائض پورے کرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ حالانکہ اس مسئلے پر مذہبی گروہ تعداد میں کم ہونے کے باجود اپنا موقف منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘‘

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ایسے معاملات کو جذباتی انداز میں لینے، فتوے جاری کرنے کا کلچر ختم کرنے کا وقت آگیا ہے اور یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ایک ایسے حکمران کے بنائے ہوئے قانون میں بہتری لائی جائے، جو بذات خود اسلام کے قوانین کے برعکس اقتدار پر قابض ہو ا تھا۔

لندن میں مقیم تجزیہ کار اور کالم نگار شمع جونیجو کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کی سخت ناقد ہوں مگر آج قوم سے ان کا خطاب لائق تحسین ہے۔ انہوں نے کہا،

’’ بہترین ۔ یہی ہونا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے پیغام دیا ہے کہ یہ بنانا ری پبلک نہیں ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی ہے‘۔‘

شمع جونیجو نے کہا کہ اب تقریر پر معاملہ ختم نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ قانون کے غلط استعمال کو روکنا ضروری ہے۔ اور اس کا اطلاق صرف اسلام پر نہیں بلکہ تمام مذاہب کی توہین کرنے والوں پر برابر ہونا چاہئے۔

پیپلزپارٹی کے دور میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہبازبھٹی کی اہلیہ سلمی وکٹر گل، امریکہ میں مقیم ہیں اور مختلف فورمز پر اقلیتیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس فیصلے پر حکومت کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔

’’صرف مسیحی یا اقلیت نہیں بلکہ وہ تمام مسلمان بھی تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے آسیہ بی بی کے لیے آواز اٹھائی۔ فیصلہ آیا تو مجھے اپنے (مقتول) شوہر شہباز بھٹی یاد آئے۔ مجھے(مقتول ) گورنر سلمان تاثیر یاد آئے ‘‘۔۔

سلمی پیٹر جان کے مطابق اگر پاکستان دنیا کے باوقار ممالک کی فہرست میں لے جانا ہے تو قیادت کو، وزیراعظم کو جج صاحبان کو اسی طرح انصاف پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔

تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی راہنما علامہ جیلان شاہ کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلہ آئین اور انصاف کے منافی ہے۔ ان کے بقول، خود اعتراف جرم کرنے والے کو کیسے بے قصور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، یہ فیصلہ بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے۔


>

اپنا تبصرہ بھیجیں