‘میں دہشت گرد کی ماں نہیں ہوں’بی بی سی رپورٹ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ذیشان جاوید کی ضعیف اور معذور والدہ نے منگل کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے بولنا شروع کیا تو وہاں مکمل خاموشی چھا گئی۔ کسی بھی ماں کی طرح انہوں نے بار بار یہی بتایا کہ ان کا بیٹا ‘بے گناہ اور معصوم’ تھا۔

’اگر میرا بیٹا دہشت گرد قرار دیا تھا تو مارا کیوں؟ اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا؟ انڈیا کے جاسوس کو زندہ گرفتار کر لیا، تو کیا میرے بیٹے کو زندہ نہیں پکڑ سکتے تھے؟`

واضح رہے کہ ساہیوال کے قریب قومی شاہراہ پر پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی جانب سے کیے گئے پولیس مقابلے میں دو خواتین سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں خلیل، ان کی اہلیہ اور کم سن بیٹی، جبکہ ڈرائیور ذیشان جاوید شامل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ کو اجلاس میں اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ ہلاک ہونے والے خلیل کے بھائی نے انصاف کا مطالبہ کیا تو ذیشان کی والدہ نے کہا کہ وہ پچیس سال سے اس علاقے کے رہائشی ہیں، لیکن کبھی ان کے بیٹے ذیشان کی کوئی شکایت نہیں آئی۔

‘میرے گھر میں گاڑی کے لیے گیراج نہیں، جب سے میرے بیٹے نے گاڑی لی تھی، یہ بیشتر وقت گھر کے باہر ہی کھڑی رہتی تھی’۔ذیشان جاوید نے بارہویں جماعت تک کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی، جس کے بعد مقامی سکول میں بطور استاد کام کیا، پھر کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام کر رہے تھے۔ بعد میں اس نے کمپیوٹر کا کاروبارشروع کیا لیکن نقصان اٹھانے کے بعد کریم آن لائن ٹیکسی سروس سے منسلک ہوگیا تھا۔‘

خیال رہے کہ ساہیوال واقعے کے بعد سی ٹی ڈی نے ایک بیان میں ہلاک ہونے والے چاروں افراد کو دہشت گرد قرار دیا لیکن اس کے چند گھنٹوں کے بعد سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پر عینی شاہدین کی جانب سے بنائی جانے والی مختلف ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد اس موقف کو تبدیل کر لیا گیا اور پنجاب پولیس اور حکومتی وزرا نے پریس کانفرنس میں صرف کار ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا۔ جبکہ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔
آج کمیٹی اجلاس میں ذیشان جاوید کی والدہ نے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کے لیے ‘دہشت گرد’ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے، ‘میری پوتی کو لوگ کیا کہیں گے کہ یہ دہشت گرد کی بیٹی ہے؟ یا یہ کہ میں دہشت گرد کی ماں ہے؟ برائے مہربانی ہمارے بیٹے پر آپ نے جو دہشت گرد کا لیبل لگا دیا ہے، اس کو ہٹا دیں ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے’۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اب ثبوت فراہم کیے جانے تک ذیشان جاوید کے نام کے ساتھ لفظ ‘دہشت گرد’ لکھا اور بولا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی حکومت کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی کو مسترد کرتی ہے اور مطالبہ کیا کہ ‘وزیراعظم جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں جو ایک ماہ کے اندر واقعے کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں سزا دے’۔

اجلاس میں موجود خلیل کے بھائی جلیل نے اپنا بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے، اس سوال پر کہ آیا پنجاب حکومت کی جانب سے کفالت کے دو کروڑ روپے کے اعلان پر عملدرآمد ہوا کہ نہیں، جلیل نے بتایا کہ ‘یہ سب ٹی وی کے بیانات ہیں، حکومت نے ان سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا’۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں، ‘اس واقعے میں ملوث تمام اہلکاروں کو سامنے لایا جائے اور انہیں سزا دی جائے’۔

واضح رہے کہ مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے خلیل، ان کی بیوی اور 13 سالہ بیٹی اریبہ خلیل کو حکومت نے تحقیقات کے بعد بے گناہ قرار دیا ہے۔

اس سے پہلے بی بی سی کے نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کے مطابق محکمۂ داخلہ کے افسر کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے صرف ایک گاڑی چلانے والا ذیشان جاوید نامی شخص ‘داعش سے تعلق رکھنے والے گروہ کا ساتھی پایا گیا’ تاہم ان کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق اس بات کی تصدیق واقعہ میں ذیشان کے مرنے کے بعد کی گئی۔
س سے قبل مرنے والے ذیشان نامی شخص کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں تھا یعنی سی ٹی ڈی پنجاب کے ساہیوال ریجن کے اہلکاروں نے بنیادی طور پر محض گاڑی کو نشانہ بنایا۔ ان کو نہیں معلوم تھا کہ گاڑی کے اندر موجود افراد میں کون مبینہ دہشت گرد تھا۔

اسی موقع پر ذیشان کے بھائی جو پنجاب میں ڈولفن پولیس کے اہلکار بھی ہیں، نے بتایا کہ ان کی سرکاری نوکری کے وقت انہوں نے اپنے بھائی کے شناختی کارڈ کی کاپی محکمے کو دی تھی اور ان کی نوکری اور تربیت تک کم از کم تین بار ان کے اہلخانہ کے تمام کوائف کی تصدیق متعلقہ ایجنسیوں نے کی تھی، ان کے بھائی ‘کسی بھی قسم کے مقدمے میں مطلوب تھے نہ ہی ان کے خلاف کبھی کسی تھانے میں معمولی نوعیت کی شکایت کا کوئی ریکارڈ موجود ہے’۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ سی ٹی ڈی یعنی محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے اپنی رپورٹ میں ذیشان جاوید کو دہشتگرد قرار دیا مگر ان کے خلاف کوئی ایک ثبوت بھی فراہم نہیں کر سکی۔

اپنے بیان کے آخر میں ذیشان کی والدہ نے سوال کیا کہ ‘پولیس کو کیا قانون سکھایا گیا ہے کہ بے گناہوں کو جنگل بیابان میں درندوں کی طرح گولیاں مار دیں؟ کیا یہی تربیت ہے پولیس کی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں