باتوں باتوں میں۔۔۔طارق بٹ۔۔۔ہور چوپو

—کرتار پور لانگا (راہداری) کھول کر عمران خان نے باونڈری کے باہر جو چھکا لگایا اسے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پزیرائی مل رہی ہے اس فیصلے کی بنیاد اس جپھی نے رکھی تھی جو نوجوت سنگھ سدھو نے عمران خان کی بحثیت وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ڈالی تھی۔ دشمن ملک کے ایک سویلین کی ہمارے ملک کے آرمی چیف کو ہماری ہی دھرتی پر ڈالی جانے والی یہ جپھی دشمن ملک کی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائی مگر اس ایک جپھی نے وہ راہ ہموار کر دی جس نے جنرل باجوہ کی پھینکی ہوئی پُلی(نرم) سی بال پر عمران خان کو وہ چھکا لگانے کا موقع فراہم کر دیا جس پر بہہ جا بہہ جا ہو رہی ہے۔ بہہ جا بہہ جا کروانے کی پوری کوشش اپنے اپنے ادوار میں بےنظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اور نوازشریف نے بھی کی مگر انہیں نہ تو عمران خان کی طرح بغیر فیلڈرز کے میدان میسر تھا اور نہ ہی کوئی پُلی(نرم) سی بال کروانے پر تیار تھا بلکہ جب بھی مزکورہ تینوں کی بیٹنگ کی باری آئی تو باونسر پڑے اور ہک کرنے کی کوشش میں بےچارے ہٹ وکٹ ہو گئے۔

جو ہوا جیسے ہوا بہت اچھا ہوا کہ سرداروں کو اپنے بابا گرو نانک تک آسان رسائی کا راستہ مل گیا ۔ شائید اس طرح سردار ہم مسلمانوں کے زیادہ قریب آ پائیں ورنہ وہ تو ہم مُسلوں کو بہت چٙتر اور چالاک سمجھتے ہیں ہو سکتا ہے آپ نے بھی وہ لطیفہ سن رکھا ہو کہ ایک مسلمان نے سردار جی سے پوچھا یار یہ دن کے بارہ بجے آپ سرداروں کا دماغ کیوں پھر جاتا ہے سردار بولا ۔ قطعاً ایسی کوئی بات نہیں یہ تم مُسلوں نے خواہ مخواہ کی بات بنائی ہوئی ہے۔مسلمان نے کہا لو بارہ تو بج ہی گئے میں ابھی ثابت بھی کر دیتا ہوں ۔سردار جی کو تیش آ گیا بولے کرو ثابت۔ مسلمان اور سردار گلی کی نُکڑ پہ کھڑے تھے مسلمان نے اپنا مکا دیوار پہ رکھا اور سردار جی کو چیلنج کیا اب میرے مکے پہ کٙس کے(زور سے) مُکا مارو۔ سردار جی بہت خوش ہوئے اور طاقت کے گھمنڈ میں تھوڑی دور سے بھاگتے ہوئے آئے اور کٙس کے مُکا مسلمان کے مُکے پر دے مارا جو سیدھا پُختہ دیوار پہ جا لگا کیونکہ مسلمان اپنا مُکا وہاں سے ہٹا چکا تھا درد کے مارے سردار جی کا برا حال تھا کھسیانے سے ہو کر بولے یار تم مُسلے ٹھیک ہی کہتے ہو بارہ بجے ہمارے واقعی بارہ بج جاتے ہیں۔

یہی سردار جی اپنے سرداروں کی محفل میں بیٹھے انہیں طعنے دے رہے تھے کہ تم سرداروں میں ذرا بھی عقل و شعور نہیں فوراً دوسروں کی باتوں میں آ جاتے ہو اور اپنا نقصان کر بیٹھتے ہو خاص طور پر بارہ بجے تمہارے بارہ بج جاتے ہیں سردار دوست بہت خفا ہوئے اور کہا سردار تو تم بھی ہو اگر ہمارے بارہ بجتے ہیں تو تمہارے بھی تو بجتے ہوں گے سردار جی بولے نہیں میں نے اب مُسلے دوست سے دانش سیکھ لی ہے کہو تو میں ثابت بھی کر سکتا ہوں ۔ سارے سردار دوست بولے چلو کرو ثابت ۔ سردار جی نے اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھا دیوار موجود نہ پا کر تھوڑے سے پریشان ہوئے مگر پھر اپنی دانش کو کام میں لاتے ہوئے اپنے ہاتھ کا مُکا بنا کر اپنے ہی مُنّہ پر رکھ لیا اور سارے دوستوں کو چیلنج کر بیٹھے آو اب جو سب سے زیادہ زور آور ہے وہ میرے مُکے پر اپنی پوری طاقت سے مُکا مارے ایک دوست اٹھا تھوڑی دور جا کر بھاگتا ہوا آیا اور رکھ کے سردار جی کے مُکے پر جٙڑ دیا مگر اتنے میں سردار جی مسلمان کی نقل میں اپنا مُکا اپنے مُنّہ سے ہٹا چکے تھے دوست سردار کا ہتھوڑا نما مُکا سردار جی کے مُنّہ پہ پڑا اور سردار جی دور زمین پر جا گرے ۔تھوڑی دیر کے بعد ہائے ہائے کرتے مُنّہ سہلاتے اٹھے اور بولے ۔کچھ بھی کر لو سردار سردار ہی رہے گا۔

جیسے سردار سردار ہی رہتا ہے ویسے ہی مخدوم بھی مخدوم ہی رہتا ہے اسی لئے تو ہمارے ملتانی مخدوم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے بناوٹ اور تصنع سے بھرے لہجے میں چبا چبا کر بتایا کہ عمران خان نے کرتار پور راہداری کھول کے گُگلی پھینکی ہے۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کپتان نے ساری زندگی تیز بولنگ کرواتے ہوئے سوئنگ ، یارکر اور باونسر سے کام لیا ہے گُگلی کا کپتان کی زندگی میں کبھی عمل دخل نہیں رہا ہاں البتہ گُگلی کے ماہر کھلاڑیوں نے نواز شریف دور میں اٹل بہاری واجپائی کی نواز شریف کے ساتھ جپھی کو ناپسند کرتے ہوئے کارگل کی گُگلی پھینکی اور پھر مودی کی نوازشریف کے ساتھ جاتی امراء میں جپھی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی کی گُگلی پھینکی گئی مگر اب نوجوت سنگھ سدھو کو عمران خان کی پاکستانی پنجاب سے الیکشن لڑنے کی پیش کش کے باوجود پُلی پُلی بولنگ کروا رہے ہیں۔واہ رے عمران خان تیرے اور تیرے دوست سردار نوجوت سنگھ سدھو کے نصیب ۔

جاتے جاتے سردار جی کا ایک قصّہ مزید سن لیں۔ ایک سردار نے اپنے کھیت میں کماد کی کاشت کا فیصلہ کیا سنگیوں دوستوں کو ساتھ لیا اور کھیت کے معائنے کو پہنچ گئے کھیت خالی تھا چنانچہ نوجوان وہاں کرکٹ کھیل رہے تھے ۔ سردار جی کے سنگی سرداروں نے مشورہ دیا کہ یہاں کماد مت کاشت کرنا یہ کھیت نوجوانوں کی نظر میں ہے وہ سارے گنے(چوپ) کھا جائیں گے ۔سردار جی نے کرکٹ کھیلتے نوجوانوں کو بلایا اور بولے ہاں بھائی جوانو ذرا یہ تو بتاو اگر یہاں کماد لگا ہو اور تم کھیلنے کے لئے آو تو کیا گنے چوپو گے۔ نوجوان بھی سردار تھے فٹ (فوراً) بولے جی ہاں پاء جی ۔بس اس کے بعد سردار جی نے اپنی ڈانگ اٹھائی اور نوجوانوں کو پیٹتے جاتے اور کہتے جاتے لو فیر ہور چوپو۔لو فیر ہور چوپو ۔ راہداری تو کھل گئی ڈر لگتا ہے کہیں 1947 کی تاریخ اپنے آپ کو دھرانا نہ شروع ہو جائے کہ اس وقت بھی مکار ہندو بنیّے نے مسلمانوں کی نسل کُشی ، جلاو گھیراو اور توڑ پھوڑ کے لئے انہی سرداروں کی کرپان اور ڈانگ کا استعمال کیا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر سردار ڈانگ لئے ہمارے گرد ہو کر ہور چوپو ہور چوپو کا نعرہ مستانہ بلند کر دیں۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں