چند تصویریں سیرت کے البم سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
چند تصویریں سیرت کے البم سے
مصنف: خرم مُراد علیہ رحمہ
پہلی تصویر
چشمِ گریاں
یہ پہلی تصویر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے محفوظ کی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔
آپ ﷺ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا‘
عبداللہ‘ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔
میں نے حیرت اور ادب سے پوچھا‘
میں آپؐ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپؐ پر تو یہ قرآن اتارا گیا ہے!
آپؐ نے فرمایا‘
ہاں میں چاہتا ہوں‘ کہ اپنے علاوہ کسی اور سے یہ قرآن سنوں۔
عبداللہؓ کہتے ہیں‘
میں نے سورۃ نساء پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ میں
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَآءِ شَہِیْدًا ﴿۴۱﴾
اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گےاور تم کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔
آواز آئی‘عبداللہ اب بس کرو۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا توآپ ﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔(بخاری و مسلم)
اس تصویرکو دیکھئے اور ذرا غور سے دیکھئے! یہ کس ذمہ داری اور جواب دہی کا اتنا گہرا اور شدید احساس ہےکہ جس نے دل کو پگھلا دیا ہے اور آنکھوں کو نمناک کر دیا ہے؟ یہ ذمہ داری اللہ کے بندوں کے سامنے سچائی اور حق کی گواہی دینے کی ذمہ داری ہے‘ یہ ذمہ داری دعوت کی ذمہ داری ہے۔ یہ شدت اس احساس کی ہے کہ ایک دن خدا کے سامنے کھڑا ہوں گا اور خدا مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے اپنی گواہی دینے کی ذمہ داری کو کہاں تک ادا کیا ‘ تو اس وقت میں کیا جواب دوں گا۔اس محبت کو دیکھئے جو اپنے رب سے ہے‘ اس خشیت کو دیکھئے جو اس کے سامنے کھڑے ہونے کے احساس سے ہے۔ یہ کیسا دل کو کھینچنے والا محبت وخشیت کا امتزاج ہے! مخلوق خداوندی کے لیے رحمت و شفقت کو دیکھئے جو قلب میں موجزن ہے۔ کلامِ ربّانی پر کیسا یقین ہےکہ اس کی بارش کے چند قطرے برسے اور ایسا تموج پیدا ہوا کہ ساری محبت و خشیت اور رحمت آنکھوں میں عیاں اور رواں ہوگئی۔ اس تصویر پر بے اختیار پیار کیوں نہ آئے!
اب ذرا س تصویر کےآئینہ میں اپنے کو بھی دیکھ لیں۔آپ خوب جانتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان آپ اپنی قوم کے سامنے‘ سارے انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے ہی ایک امت بنائے گئے ہیں۔ یہی آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔ اسی مقصد کے لیے آپ مجتمع ہوئے ہیں۔ رات دن آپ کی زبانوں پر نفاذ شریعت‘ اسلامی نظام‘ اقامت دین‘ حاکمیت الہیٰ‘ شہادت حق کے الفاظ رہتے ہیں۔ سچ بتائیں‘ رات کی تاریکی اور تنہائی ہو یا دن کا اجالا‘ اب تک ایسا کتنی بار ہوا کہ آپ کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر آئی ہوں‘ یہ سوچ کر کہ آپ کے چاروں طرف بسنے والے انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے جب آپ خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے تو آپ کا کیا حال ہوگا فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا بِکَ
یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہی ہےکہ جس طرح اللہ کے رسول ﷺنے ہمارے سامنے حق کی گواہی دی اسی طرح آپ سارے انسانوں کے سامنے دینے کے ذمہ دار ہیں۔ جس طرح وہ خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے‘ اسی طرح آپ بھی ہوں گے۔آپ سے بھی پوچھا جائے گا کہ آپ نے اپنے گھر والوں‘ اپنے اسکول اور کالج ‘ اپنے محلے اور دفتر‘ اپنے شہر اور ملک میں بسنے والے اور گمراہی میں بھٹکنے والے انسانون کے سامنے حق کی گواہی دی یا نہیں؟ آپ سچے گواہ تھے کہ جھوٹے ؟ آپ ہوشیار تھے یا اپنی گواہی کی ذمہ داری سے غفلت میں ہی زندگی گزارتے رہے؟ آپ کو ان سب انسانوں کا درد اور غم تھا‘ یا صرف اپنی دنیا بنانے یا اپنی نجات کی فکر تھی؟
کیا یہ سب سوچ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جو تصویر ہے یہ آپ کے دل میں نہیں اتری۔ ابھی آپ کے دل میں وہ جذب دروں اور اپنے رب اور اس کی مخلوق سےوہ محبت پیدا نہیں ہوئی جس کے بغیر آپ کی زندگی حسن و خوبی سے محروم رہے گی۔ آپ تقریریں کرلیں‘ کتابیں پڑھ لیں‘ نعرے لگالیں‘ لیکن جب تک جذب دروں‘ یہ محبت ‘ اپنے مقصد کا یہ عشق آپ کے دل میں پیوست نہ ہوجائے اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا۔
یہ تصویر دیکھنے کے بعد یہ احساس ہونا یہ چاہیے کہ آپ لرز اٹھیں‘ کانپ جائیں‘ روپڑیں‘ جب یہ سوچیں کہ ہرہ وہ شخص جو اپنے رب سے غافل اور بے نیاز ہے‘ اپنے رب کی راہ پر نہیں چل رہا‘ اپنے رب کی بندگی نہیں کر رہا‘ اس کے بارے میں آپ سے آپ کا رب پوچھے گا اور آپ کو اس کی گمراہی کی جواب دہی کرنا پڑے گی‘ اس کے اپنےرب دور رہنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں