پاکستان میں ’بچوں‘ کا نشہ؟

پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘دوست ویلفیر فاؤنڈیشن’ کے پشاور میں رکن طارق محمود نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تجربے کے مطابق اب بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ‘کینابس’ ہی استعمال ہوتی تاہم اس کے زیادہ تر عادی بچے یعنی 18 سال سے کم عمر کے لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں ان کے ادارے کے مرکز میں حالیہ چوبیس ماہ میں تقریباً چھ ہزار افراد بحالی کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں تقریباً 9 دس سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچے تھے جن میں سے اسّی فیصد ‘کینابس’ کے عادی تھے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی عمر کے افراد میں نوے فیصد ہیروئن کے عادی تھے۔

‘دوست فاؤنڈیشن’ کے طارق محمود نے کہا کہ وہ پاکستان میں ‘کینابس’ کو جائز قرار دینے کے بالکل بھی حق میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نقصانات زیادہ اور فائدے کم ہیں اور ویسے بھی کینیڈا اور پاکستان کے حالات میں بہت فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نشے کے سب سے زیادہ عادی افراد صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیں اور اس کی ایک وجہ افغانستان سے جغرافیائی قربت ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے جرائم اور منشیات کی سن 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ اعشاریہ سات فیصد پاکستانی منشیات استعمال کر رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ‘کینابس’ استعمال کرنے والوں کی تعداد اُس وقت تین اعشاریہ چھ فیصد یعنی چالیس لاکھ تھی۔ بعض اندازوں کے مطابق اس تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں ‘کینبس’ کی قانونی حیثیت
پاکستان میں سپریم کورٹ کے سینیر وکیل اور منشیات کے قانون کے ماہر ایڈووکیٹ نور عالم خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹنسز ایکٹ 1997’ میں منشیات کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت شقیں شامل کی گئی تھیں جن کے تحت ایک کلو سے زیادہ منشیات رکھنے پر جج سزائے موت یا کم سے کم چودہ سال قید سے لے کر عمر قید تک سزا سنا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سزا کا دار و مدار نشے کی مقدار اور کوالٹی پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ نور عالم خان نے بتایا کہ دس کلوگرام سے زیادہ منشیات رکھنے پر کم سے کم سزا عمر قید ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1997 میں ضمانت کا حصول بھی مشکل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت عدالت پرائیویٹ گواہ کی عدم موجودگی میں بھی صرف پولیس کی گواہی پر سزا دے سکتی ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے تحف اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا بوجھ بھی ملزم پر ہوتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ان سخت قوانین کے باوجود منشیات کے استعمال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس کی وجوہات میں انہوں نے ‘ڈرگ بیرنز’ کو سزائیں نہ ملنا، لوگوں میں راتوں رات امیر بننے کا شوق شامل ہیں۔

‘دوست فاؤنڈیشن’ کے طارق محمود نے بھی یہی بتایا کہ حکومتی اقدامات اپنی جگہ لیکن منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کو تین مرحلوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے ایک میں ‘روایتی منشیات’ جن میں افیون، ہشیش، چرس اور بھنگ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1979 کے حدود آرڈیننس میں جب ان پر پابندی لگی اس وقت ملک میں ایک افیون استعمال کرنے والے رجسٹرڈ افراد کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ پھر 1980 کی دہائی میں ہیروئن آئی اور ملک کی مرد آبادی میں تیزی سے پھیل گئی۔ شہری آبادی میں ادویات کے غلط استعمال کا رجحان بھی اس کے علاوہ ہے۔

پاکستان اور منشیات کا عالمی روٹ
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں منشیات کی سمگلنگ کے ایک مصروف ترین روٹ پر واقع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی 40 فیصد ہیروئن اور چرس پاکستان سے ہو کر گزرتی ہے اور اس کی بڑی مقدار پاکستان میں ہی استعمال ہو جاتی ہے۔ رپورٹ میں ایک تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق سن 2009 میں افغانستان سے 160 ٹن ہیروئن میں داخل ہوئی جس میں سے 20 ٹن یہیں استعمال ہوئی۔ اسی طرح سن 2011 میں افغانستان میں 1300 ٹن ہشیش(کینبس) غیر قانونی طور پر پیدا ہوئی جو ہیروئن اور دیگر منشیات کی طرح ہی پاکستان میں داخل ہوئی۔

اقوام متحدہ نے پاکستانی حکام کی طرف سے ضبط کی گئی منشیات کے بارے میں معلومات کی بنیاد پر یہ نتیجہ قائم کیا۔

courtesy:BBC/urdu

اپنا تبصرہ بھیجیں