باتوں باتوں میں ۔ طارق بٹ ۔ ہن آرام اے ۔

باتوں باتوں میں ۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ ہن آرام اے ۔۔۔ عارضی طور پر جاتی امراء میں مقیم منکہ مسمی نواز شریف بوساطت طارق بٹ آپ سے مخاطب ہونے کی جسارت کر رہا ہوں عارضی طور پر اس لئے کہ بقول وزیر اطلاعات فواد چودھری میری مستقل رہائش کا انتظام اڈیالہ جیل میں کیا جا چکا ہے فواد چودھری کی اس لئے ماننی پڑتی ہے کہ وہ وزیر اطلاعات ہیں ان کے پاس ضرور اس حوالے سے کوئی مستند اطلاع پہنچی ہو گی اسی لئے انہوں نے یہ بات میڈیا کے ذریعے سب تک پہنچائی ہے۔ ویسے تو آپ کی طرح میرا بھی دل نہیں مانتا کہ وہ سچ بول رہے ہیں اس لئے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کھڑی کی گئی ہے بشمول وزیر اعظم کوئی ایک وزیر بھی اپنی بات پر کھڑا نہیں رہ سکا ۔ بالکل ویسے ہی جیسے بیساکھیوں پر کھڑا شخص ڈولتا رہتا ہے اس حکومت کے بیساکھیوں پر کھڑے وزیر اعظم اور وزرا بھی ڈگمگاتے رہتے ہیں ۔ آپ میں سے جو دیہاتوں میں رہتے ہیں انہوں نے گرگٹ تو دیکھا ہو گا اور اس کے پل پل رنگ بدلنے کی صلاحیتوں سے بھی آشنا ہوں گے شہروں میں رہنے والوں نے بھی ضرور گرگٹ کی صلاحیتوں کے بارے میں سن رکھا ہو گا اگر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تو موجودہ چنے گئے وزیر اعظم اور وزرا کے پل پل بدلتے بیانات سے گرگٹ کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں فرق دونوں میں صرف اتنا ہے کہ گرگٹ رنگ بدلنے میں تھوڑی دیر لگاتا ہے جب کہ موجودہ چنے گئے ہیروں کے ابھی پہلے بیان پر فل اسٹاپ بھی نہیں لگتا کہ کومہ لگا کر نیا بیان شروع کر دیتے ہیں ۔

الزام در الزام در الزام کے سہارے کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف میرے مخالفین پاکستانی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار میری گذشتہ حکومت کو گردانتے ہیں ۔ میڈیا پر ان کا اور ان کو سہارا دے کر کھڑا کرنے والوں کا مکمل کنٹرول ہے تصویر کا ایک رخ مسلسل دیکھتے ہوئے کہیں آپ یقین نہ کر لیں کہ ان کا کہا ہوا درست ہے اس لئے آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ یکم جولائی 2013 سے 31 مارچ 2018 ہماری حکومت نے کل 42.1 ارب امریکی ڈالر کے قریب قرضہ لیا جب کہ اسی دوران 70 ارب ڈالر کے قریب قرضہ واپس بھی کیا گیا یہ صرف میں نہیں کہتا خود موجودہ حکومت قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں اس بات کی تصدیق کر چکی ہے ۔

اب ذرا ہمارے دور میں معیشت کی تباہی کی داستان بھی سن لیں زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر ہمارے دور حکومت میں ہوئے۔ اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی تاریخ کے ریکارڈ 52000 پوائنٹس تک ہمارے اقدامات کی وجہ سے پہنچی ۔ انٹرسٹ ریٹ 7.5 تک پہنچا اسحاق ڈار کی انتھک محنت کی بدولت ۔میری وزارت خزانہ کی ٹیم نے دن رات محنت کر کے شرح ترقی 3.5 سے 5.5 پہنچا دی اور ہماری تگ و دو سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں 7 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔ بجلی کے کارخانے بنے ،موٹر ویز بنیں، اورینج ٹرین کا منصوبہ شروع ہوا ، میٹروز بنیں، سڑکوں کے جال بچھائے اس طرح کی، اور اتنی ترقی کی پہلے کوئی مثال موجود ہو تو مجھے بتایا جائے ۔

اب کیا ہو رہا ہے ترقیاتی فنڈ آدھے سے بھی کم کر دیا گیا ہے صحت اور تعلیم کے بجٹ میں بھی کٹوتی ہو چکی ہے ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ پہ بھی کلہاڑا چلا دیا گیا ۔ بجلی ، گیس، پیٹرول، سی این جی ، پھل ،سبزیاں گوشت ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کرنے والے دعوی کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم ہاوس ، گورنر ہاوس اور وزیر اعلی ہاوس کو یونیورسٹیاں بنائیں گے اسکولوں کو دینے کے لئے پیسے ہیں نہیں قوم کو یونیورسٹیوں کے خواب دکھا رہے ہیں اور یہ سب کچھ ان کی طرف سے ہو رہا ہے جو آئے روز ایک نیا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ ایک ایک دن میں کئی کئی جھوٹ بولتے ہیں مگر ہاتھوں میں صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ بھی اٹھا رکھا ہے اس پر اب کوئی کہے بھی تو کیا کہے۔

میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بھی غلطیاں ہوئیں میں منتخب ایوانوں کو اتنا وقت نہیں دے سکا جتنا دینا چاہیے تھا ۔ میں اپنے منتخب اراکین پارلیمنٹ کو بھی خاطر خواہ وقت دینے میں ناکام رہا ۔ مگر کیا کرتا میرے پاس وزارت خارجہ بھی تھی میں نے مختلف ممالک کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات بھی تو ٹھیک کرنے تھے۔ میں نے آئینی اصلاحات کمیٹی کی 62/63 کو آئین سے نکالنے کی تجویز نہ مان کر اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری مگر مجبور تھا مذہبی جماعتوں کی نہ مانتا تو وہ میرا جینا حرام کر دیتیں ۔پاناما کا ہنگامہ کھڑا ہوا تو پیپلز پارٹی نے بہت زور دیا کہ اس پر پارلیمانی کمیٹی بنا دی جائے مگر چودھری نثار کو اس کے پیچھے ان کی چال نظر آتی تھی اسحاق ڈار بھی مخالف تھے پھر شہباز شریف بھی ان کے حامی بن گئے ان تینوں کو کیسے ناراض کرتا ۔ میں نے اپنے لئے خود گڑھا کھودا اور عدالت عظمی پہنچ گیا پھر وہ چکر چلا کہ مجھے اپنی لاڈلی بیٹی کے ساتھ اڈیالہ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

دوران اسیری میری رفیق سفر مجھے تنہا چھوڑ کر خود سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ۔ اس وقت میری جو حالت ہے وہ وہی بتا سکتا ہے جو کبھی اس کیفیت سے گزرا ہو مگر میری دادرسی اور دلجوئی کرنے کی بجائے ووٹ کو عزت دو کے مخالفین مجھ پر مزید ستم ڈھانے کو تیار بیٹھے ہیں ہر روز ایک نیا ستم ، پہلے تو میرے برادر خورد شہباز شریف کو سجی دکھا کے کھبی لگا دی بلایا صاف پانی کیس میں اور بند کر دیا آشیانہ کیس میں، پھر سیاست سے دور دور کا واسطہ نہ رکھنے والے میرے بھتیجے سلمان شہباز کے پیچھے پڑ گئے ابھی آگے آگے دیکھیں کیا ظہور پذیر ہوتا ہے اب زیادہ لمبی بات کیا کرنی مختصر یہ کہ مجھ پر جو بیت رہی ہے میں برداشت کر لوں گا مگر ووٹ کو عزت دو کے موقف سے سرمو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوں ۔ البتہ وہ جو لہک لہک کر گاتے تھے جب آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان ان سے پوچھنا تھا ۔ ہن آرام اے ۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں