فوکس نیوز سمیت کئی نشریاتی اداروں کا ’سی این این‘ کی حمایت کا اعلان

’فوکس نیوز‘ کے صدر، جے ویلس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’وائٹ ہاؤس کو کور کرنے والے صحافیوں کو خفیہ ادارے کی جانب سے جاری کردہ پاس کو ہتھیار کے طور پر ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے‘‘

واشنگٹن —
خبروں کے متعدد اداروں نے ’سی این این‘ کے نمائندے جِم اکوسٹا کے وائٹ ہاؤس تک رسائی کے اجازت نامے کی منسوخی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں اپنا وزن ’سی این این‘ کے پلڑے میں ڈالنے کا اعلان کیا ہے۔ اِن میں مخالف نیوز نیٹ ورک کا چینل، ’فوکس نیوز‘ بھی شامل ہے۔

’فوکس نیوز‘ کے صدر، جے ویلس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’وائٹ ہاؤس کو کور کرنے والے صحافیوں کو خفیہ ادارے کی جانب سے جاری کردہ پاس کو ہتھیار کے طور پر ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘

بقول اُن کے ’’ایسا ہے کہ ہم میڈیا کی موجودگی کے حالیہ مواقع کے دوران صدر اور پریس دونوں ہی کی جانب سے مخالفانہ طرز عمل کو صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ہم آزاد صحافت، امریکی عوام کو باخبر رکھنے کے لیے تقریبات تک رسائی اور برملا اظہار خیال کے حامی ہیں‘‘۔

خبروں کی تنظیموں کے اتحاد نے، جن میں ’بلوم برگ‘، ’یو ایس اے ٹوڈے‘، ’دی ایسو سی ایٹڈ پریس‘ اور دیگر ادارے شامل ہیں، ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ ’فرینڈ آف دی کورٹ‘ کی مختصر دستاویز دائر کی جائے گی، جس میں وائٹ ہاؤس کے خلاف ’سی این این‘ کے مقدمے کی حمایت کی جائے گی۔

اس معاملے کے بارے میں پوچھنے پر، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ’ڈیلی کالر‘ کو بتایا کہ ’’مجھے پتا نہیں کہ ہمیں (جیت) نصیب ہوگی۔۔۔ ہم دیکھیں گے کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔ کیا یہ آزادیِ صحافت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص آئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردے، اور کہنے کے باوجود نشست پر نہ بیٹھے؟‘‘۔

وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری، سارا سینڈرز نے مقدمے کو زیادہ اہمیت نہیں دی، جسے ’’سی این این نے اپنی شان سمجھ کر دائر کیا ہے‘‘؛ یہ کہتے ہوئے کہ انتظامیہ جِم اکوسٹا کی دستاویزات کی منسوخی کے فیصلے پر قائم ہے۔

منگل کے روز ایک بیان میں، سینڈرز نے کہا کہ ’’جب مسٹر اکوسٹا صدر سے دو سوال کرچکے۔۔۔۔جن میں سے صدر نے دونوں ہی کے جواب دیے۔۔۔۔ اُنھوں نے مائکروفون وائٹ ہاؤس کی ’انٹرن‘ کے حوالے کرنے سے انکار کیا، تاکہ دیگر اخباری نمائندے اپنے سوالات کر سکیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ اُسی نمائندے نے اس قسم کا نامناسب انداز اپنایا جو دوسرے نمائندوں کو موقع فراہم کرنے میں حائل ہوا‘‘۔

ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ ہفتے اکوسٹا کا ’ہارڈ پاس‘ منسوخ کیا، جس کے ذریعے اُنھیں وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل تھی۔ دستاویز کی معطلی اُس وقت کی گئی جب نمائندے نے ٹرمپ کی جانب سے وسط امریکی تارکین وطن کے قافلے کو ’’چڑھائی‘‘ کے عمل سے تشبیہ دینے سے اختلاف کیا۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں نے اکوسٹا پر یہ بھی الزام دیا ہے کہ اُنھوں نے وائٹ ہاؤس کی پریس سے متعلق مامور اہلکار کو چھوا، جو اُن سے مائکروفون واپس لینا چاہتی تھیں۔ وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکوسٹا کا انداز خاتون سے سختی برتنے کا نہیں تھا۔

تاہم، پریس سکریٹری کی جانب سے منگل کے روز جاری ہونے والے بیان میں وائٹ ہاؤس کے گذشتہ الزام کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ اکوسٹا نے خاتون کو ہاتھ لگایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں