باتوں باتوں میں… طارق بٹ… اپریشن ردالفساد

… تیس سال پہلے جب طارق بٹ آئینہ دیکھتا تھا تو اسے بہت اچھا لگتا تھا جوانی کا دور دورہ تھا چہرے پر داڑھی مونچھ کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا کالے سیاہ بال اور سرخی مائل چہرے کی رنگت بار بار آئینہ دیکھنے کو مجبور کرتی سنورے ہوئے بالوں کو خواہ مخواہ دن میں کئی بار سنوارنے کو دل چاہتا مگر آج تیس سال بعد وہی آئینہ چہرے کے نقوش کو اتنا بھدا بنا کر دکھاتا ہے کہ صبح کا دیکھا آئینہ پھر سارا دن دیکھنے کی تمنا نہیں رہتی ایک بار آئینے کی اس بے رخی اور بے وفائی پر تلملاتے ہوئے اس پر ایک موٹا سا پتھر دے مارا مگر اس کے بعد آئینے نے جو شکل کا حلیہ بگاڑا دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہوئی ہاں البتہ آئینہ بدلنا پڑا – بہت دیر بعد بات سمجھ میں آئی کہ قصور بے چارے آئینے کا نہیں تبدیلیاں تو ما بدولت کی شکل مبارک میں آئی ہیں آئینہ تو وہی دکھائے گا جو اصل میں ہے-

صحافی معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو اپنے ملک کے حکمرانوں اور مختلف اداروں کو ان کی کارکردگی کا آئینہ دکھاتا رہتا ہے یہ حکمران جب تک اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی صحافیوں سے بہت گہری دوستیاں ہوتی ہیں کہ انہی صحافیوں کے قلم اور زبان کے ذریعے وہ اپنے ملک کے عوام کو سہانے سپنے دکھاتے ہیں بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم کا ان سے زیادہ خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوتا اس وقت وہ تحریر و تقریر کے سب سے بڑے حامی اور اظہار رائے کی آزادی کے سب سے بڑے علمبردار ہوتے ہیں- اپنی آواز اور اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کے لئے اپنی سب سے بہترین اور قیمتی گاڑی صحافیوں کو اپنے جلسے جلوس کی کوریج کے لئے لانے کو بھیجتے ہیں جلسے میں نمایاں اور مخصوص جگہ صحافیوں کے لئے مختص کرتے ہیں تقریب کے اختتام پر اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ صحافیوں کی خاطر مدارات میں کسی قسم کی کمی نہ رہے صحافی مقامی اخبار کا ہو یا قومی کا ہر ایک کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں- اس تمام تگ و دو کے بعد بالآخر منزل مقصود یعنی اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اور پھر یکدم گرگٹ رنگ تبدیل کر لیتا ہے وہی صحافی جو آنکھوں کے تارے ہوتے ہیں آنکھوں میں کھٹکنے لگتے ہیں-

آنکھوں کا یہ کھٹکا اگر ہر وقت رہے تو اچھا ہے کہ اصلی اور نسلی صحافی نہ تو حکومت کا دوست ہو سکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا، وہ تو صرف اپنی آنکھ اور قلم کا دوست ہوتا ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے کہ جو کچھ آنکھ سے دیکھے قلم سے اظہار کر دے اسی لئے تو کسی شاعر نے کہا تھا – جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں-

حقائق بیان کرنے والا یہ سب سے بڑا فسادی طبقہ ہر حکمران کی طرح آج کل موجودہ حکومت کی آنکھوں میں بھی کھٹکنے لگا ہے کہ عمران خان جب تک اپوزیشن میں رہے انہیں یہ فسادی بہت اچھے لگتے تھے کہ تب یہ اس وقت کے حکمرانوں کے طرز حکمرانی پر قلم کے نشتر چلایا کرتے تھے مگر جونہی تنقید کا رخ ان کے اپنے طرز حکمرانی کی طرف ہوا انہوں نے آپریشن ردالفساد کا آغاز کر دیا- سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کئے گئے اس آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں اب تک بیسیوں اخبارات بند ہوچکے ہیں کچھ نیوز چینل اپنے انجام کو پہنچ گئے اور کچھ آخری ہچکیاں لے رہے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں صحافی بےروزگار ہو چکے ہیں اور ابھی سینکڑوں قطار میں لگے ہیں-

قلم کو زنجیروں میں جکڑنے کا طریقہ نیا نہیں کہ گذشتہ ادوار میں بھی یہ چلن رہا خصوصا آمریت کے ہر دور میں مختلف آمرانہ قوانین کے ذریعے زبان بندی ، اشتہارات بندی اور صحافیوں کی جیل بندی کا سلسلہ جاری رہا مگر اصلی اور نسلی صحافی فساد برپا کرتے رہے کہ جو کچھ دیکھتے تھے وہی لکھتے اور بولتے رہے پھر جب وقت نے کروٹ بدلی اور پابندیاں لگانے والے خود پابندیوں کی زد میں آئے اور فسادیوں نے ان کی مظلومیت اور ان پر ہونے والے مظالم کی داستانیں درج کیں تو انہیں احساس ہوا کہ ان کا اپنے دور حکمرانی میں کیا جانے والا آپریشن ردالفساد سراسر غلط اور ناجائز تھا مگر اس وقت سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہ ہو سکتا تھا ہاں سبق ضرور سیکھا جا سکتا تھا مگر وہ بھی نہ سیکھا گیا کہ پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی صحافی فسادی لگنے لگے اور آپریشن ردالفساد لازم ٹھہرا-

موجودہ آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں اگر سینکڑوں فسادیوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں گھر کا نظام چلانے کے لئے گھر کا سامان بک رہا ہے فیسوں کی عدم ادائیگی کی بنا پر ان کے بچوں کو اسکولوں سے نکال باہر کیا جا رہا ہے اور کل تک ان کی آو بھگت کرنے والے آج ان سے نظریں چرا رہے ہیں دن میں پانچ پانچ بار فون کر کے خیریت دریافت کرنے والے آج ان کے پچاس پچاس بار کئے جانے والے فون نہیں اٹھا رہے تو اس میں ان فسادیوں کا اپنا قصور بھی تو ہے کہ بجائے ایک تنظیم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اپنی طاقت میں اضافہ کرتے انہوں نے اس تنظیم کے بطن سے مختلف دھڑے نکال کر اپنی طاقت کو کمزوری میں بدل دیا ہے فسادیوں کے آپس کے اختلافات اور جھگڑوں نے آپریشن ردالفساد کو آسان سے آسان تر بنا دیا ہے ایک گروپ کی بے روزگاری پر دوسرا گروپ بغلیں بجاتا ہے اور دوسرا گروپ پہلے گروپ کے کارکنان کی بے روزگاری پر خوشی کے شادیانے بجاتا دکھائی دیتا ہے ہر گروپ اور دھڑے کی قیادت اراکین کے مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں مگن ہے سائیکل سوار آج لینڈ کروزر کے مزے لے رہے جھونپڑی نشین آج کوٹھیوں کے باسی بن چکے ویگنوں کے پائیدان پر لٹک کر سفر کرنے والے بزنس کلاس میں امریکہ، برطانیہ اور دبئی موسم سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں ایسی قیادت کی موجودگی میں فسادی جتنا مرضی ہے فساد برپا کر لیں ان کی شنوائی ہونے کی کوئی توقع نہیں-

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتوں اور معاشرے کو آئینہ دکھانے والے خود بھی آئینہ دیکھیں اور اس آئینے میں نظر آنے والے مفاد پرست چہروں سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے اپنے میں سے اپنے لئے اس قیادت کا انتخاب کریں جو دو چہرہ نہ ہو اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انا کے بت کو توڑ کر ایک پرچم اور ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز بلند کریں کہ اتفاق اور اتحاد منزل کے حصول کو آسان بنا دے گا ورنہ ہر دور میں آپریشن ردالفساد جاری رہے گا…!

اپنا تبصرہ بھیجیں