باتوں باتوں میں…طارق بٹ…پچھتاوا اور مداوا

… پشتون تحفظ موومنٹ کے راستے سے رکاوٹیں ہٹنے لگیں کہ بالآخر مقتدر حلقوں کو اس بات کا احساس ہو ہی گیا کہ حقوق کے حصول پر مبنی تحریکوں کو جتنا بھی کچلنے کی کوشش کی جائے یہ ختم نہیں ہوا کرتیں بلکہ ان میں مزید شدت آتی ہے بہت اچھا فیصلہ ہے کہ اپنوں کو پاس بٹھا کر ان کی بات توجہ سے سنی جائے اور ہرممکن تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے اس سے پہلے کہ پھر پچھتاوا کچوکے لگانے لگا اور مداوا کسی صورت ممکن نہ رہے-

2014 سے شروع ہونے والا کھیل گو کہ تاحال جاری ہے مگر معتبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اب اس کھیل سے تماشائیوں کو اکتاہٹ اور کٹھ پتلی ہلانے والے ہاتھوں میں تھکاوٹ ہونے لگی ہے کہ اناڑیوں پر بھروسہ توقعات کے پروان نہ چڑھنے کے باعث اب پچھتاوے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب جس نواز شریف کے خلاف فاول پلے جاری ہے اس نے ہر رکاوٹ اور فاول کے باوجود میدان چھوڑنے سے بار بار کے رابطوں کے باوجود انکار کر دیا ہے اور اب یا کبھی نہیں کی پالیسی پر گامزن ہے اس سخت موقف نے مقتدر حلقوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ اپنے ہی لگائے ہوئے پودے سے وہ شدید طوفان میں ڈٹ کر کھڑا رہنے کی توقع نہ رکھتے تھے اس لئے کہ سابقہ ادوار کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ذرا سی مخالف ہوا نواز شریف کو جھکنے پر مجبور کر دیتی تھی مگر اب کی بار جھکنا تو درکنار لچک بھی نہیں دکھائی جا رہی – چنانچہ کھیل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اب پچھتاوا مداوے کی صورت میں حل کی جانب گامزن ہونے کو ہے –

جعلی اور بے نامی اکاونٹس کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی جانے والی JIT کی رپورٹ پر جو رد عمل حکومتی ایوانوں سے سامنے آیا کہ یہ ایک ایسا کیس ہے جس کی ہر کڑی ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل کر ایک ایسی زنجیر کا روپ دھار رہی ہے جو چاروں صوبوں کی زنجیر والی پارٹی کی موجودہ قیادت کو اپنی جکڑ میں لے لے گی مگر عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان نے اس رپورٹ کو آسمانی صحیفہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے من و عن ماننے سے انکار کر دیا اور اسے مزید تحقیقات کے لئے بقول عدالت مردہ گھوڑے نیب کے سموں کے نیچے دے دیا اب نیب اسے روندتا رہے گا کہ کوئی نگران جج مقرر نہیں کیا گیا جو نیب کے مردہ گھوڑے میں نئی جان ڈال کر اسے سر پٹ بھاگنے پر مجبور کر سکے-وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کہ گزشتہ دس سال سے وزیر خزانہ ہیں اور براہ راست تعلق بنکوں کے معاملات سے رکھتے ہیں مگر ECL سے ان کا نام نکالنے کے احکامات صادر فرمائے گئے اور بلاول کو کمپنی ڈائریکٹر ہونے کے باوجود معصوم بچہ گردانا گیا یہ تمام اقدامات سوچ میں تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں-

حالیہ JIT رپورٹ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں تھی نہ ہی اسے تیار کرنے والے معصوم فرشتے کہ غلطی کا امکان بہر حال موجود ہوتا ہے مگر ایک JIT رپورٹ پہلے بھی تیار ہوئی تھی جس کے تیار کرنے والے ہیروں کو واٹس ایپ کے ذریعے تراش تراش کے لگایا گیا اور پھر ان کی تعریفوں کے ڈونگرے برسائے گئے رپورٹ کی تیاری کے دوران انہیں تحفظ فراہم کیا گیا ان پر ایک محترم جج کو نگران مقرر فرمایا گیا اور رپورٹ کی تیاری کے بعد بھی ان کے تبادلوں پر پابندی کے احکامات صادر فرمائے گئے ان تراشیدہ ہیروں نے شریف خاندان کے ابتدا سے اس وقت تک کے تمام معاملات کو چیر پھاڑ کر ان میں سے ایک اقامہ برآمد کیا جس پر اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے کے الزام میں نواز شریف کو تا حیات نا اہل کر دیا گیا –

احتساب عدالت میں کیس چلے ایک ہی الزام آمدن سے زائد اثاثے پر تین الگ الگ کیس ، وکلاء اور سابق جج صاحبان کی ایک کثیر تعداد حیران و پریشان کہ ایک ہی الزام پر تین الگ کیس کیوں؟ قانون تو ایک ہی جرم پر دو سزاوں کی سختی سے ممانعت کرتا ہے مگر نقارخانے میں طوطی کی صدا سننے کو کوئی تیار نہ ہوا ، دو بار وزیر اعلی اور تین بار وزارت عظمی کے منصب جلیلہ پر فائز رہنے والے نواز شریف کو عدالت حاضری سے دو یا تین بار کا استثنی بھی احسان عظیم کے طور پر دیا گیا نواز شریف تاریخوں پر تاریخیں بھگتتا رہا ادھر بستر مرگ پر پڑی کلثوم نواز کی بند ہوتی آنکھیں تا دیر دروازے پر جمی رہیں کہ اس کا شریک سفر آخری ملاقات کے لئے اب آیا کہ تب آیا مگر نہ یہ اب آیا اور نہ تب کہ نواز شریف اپنے سخت موقف کی بنا پر اب پیا من نہیں بھاتا اسی دوران پیا کی طرح نواز شریف سے کلثوم نواز بھی روٹھ گئی نصف صدی پر محیط رفاقت ایسے چھوٹی کہ نواز شریف نے چپ سادھ لی اس خاموشی پر بھی بڑھ چڑھ کر تبصرے کئے گئے این آر او کے آوازے کسے گئے پورا ٹبر چور کے نعرے لگائے گئے مگر ایک نہیں ، دو نہیں ، تینوں کیسوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کی جا سکی گو کہ نواز شریف کے حق میں قطری شہزادے کے خط کو اہمیت نہ دیتے ہوئے وڈیو لنک پر اس کا بیان ریکارڈ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی جب کہ نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت میں رابرٹ ریڈلی کا بیان وڈیو لنک پر ریکارڈ کر لیا گیا مگر وہ بھی الٹا استغاثہ کی مخالفت میں گیا کہ جھوٹ کے پاوں تو ہوتے نہیں-

ایون فیلڈ کے کمزور فیصلے اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کیس میں بریت نے وہ راستہ دکھا دیا جس کی مقتدر حلقوں کو تلاش تھی کہ ان کے تراشے ہوئے بت تو بڑے مٹی کے مادھو ثابت ہوئے یہ مٹی کے مادھو دیکھنے میں تو بہت صاف ستھرے نظر آئے ان کی بلند قامت نے وقتی طور پر متاثر بھی بہت کیا مگر جب عمل کا وقت آیا تو یہ بلند قامت بالکل بونے ثابت ہوئے ایسے بونے جو انگور توڑنے کے لئے اچھلتے کھودتے تو بہت ہیں مگر جب انگور کے خوشےتوڑنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں کھٹے کہہ دیتے ہیں اپنی خامی ، کمی ، کوتاہی ، نالائقی اور نااہلی کو پھر بھی تسلیم نہیں کرتے – مگر وہ کہ جن کی امیدوں اور آرزوں کا محور و مرکز پاک وطن ہے اس اچھل کود سے مزید مستفید ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے پچھتاوا اب مدواے کو تیار ہو رہا ہے خوش قسمتی سے انصاف کے اعلی ایوان میں آنے والی تبدیلی اس سوچ کو مزید پروان چڑھا سکتی ہے کہ انصاف کے ایوان زیریں سے ہونے والے فیصلے جب انصاف کے اعلی ایوان میں پہنچیں گے تو وہاں نواز شریف کے وکلاء کی جانب سے فل کورٹ کے لئے ایک درخواست دائر کی جائے گی جسے قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے تمام کے تمام منصف فل کورٹ کی صورت میں بیٹھ کر اپنے اور اپنے ساتھی منصفین کی جانب سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کریں گے کہ پچھتاوا وہاں بھی ہے جس کا مداوا بہت جلد ہونے کی توقع ہے…!

اپنا تبصرہ بھیجیں