باتوں باتوں میں… طارق بٹ… نواز شریف نہیں مانا

… اس میں قطعا کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کا سیاسی جنم جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں جنرل جیلانی کی مارشل لائی کیاری میں ہوا اسی دور میں آبیاری ہوئی اور یہ سیاسی پودا پروان چڑھ کے درخت بنا – اس درخت کی مختلف ادوار میں شاخیں کاٹنے کی کوشش ہوتی رہی مگر یہ شاخ تراشی بجائے اس کے کہ درخت کو ٹنڈ منڈ کر دیتی ہمیشہ اسے فائدہ پہنچایا اور درخت مزید چھتناور ہوتا چلا گیا – نواز شریف پر الزام لگا اور بالکل درست لگا کہ اس نے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے لئے چھانگا مانگا سیاست کو رواج دیا مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اراکین کی خرید و فروخت کا سلسلہ پاکستان میں جمہوریت کی آمد کے ساتھ ہی آغاز ہو گیا تھا جو ہر دور میں جاری رہا اور آج بام عروج کو پہنچا ہوا ہے اس کار خیر میں نواز شریف اکیلا قصور وار نہیں بلکہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا یہی چلن رہا ہے اور اب بھی جاری ہے- یہ بات کرنے کا مقصد قطعا یہ نہیں کہ اراکین کی خریداری کا یہ عمل درست ہے مگر جب اراکین اسمبلی اپنے آپ کو خریداری کے لئے پیش کریں تو حکومتیں بنانے کے خواہشمند خریدار تو مارکیٹ کا رخ ضرور کریں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے سخت قوانین متعارف کروائے جائیں-

نواز شریف پر بھارت نواز ہونے کا الزام بھی تواتر کے ساتھ لگایا جاتا ہے مگر کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ نوازشریف کے ہر دور حکومت میں بھارت کے ساتھ تعلقات اگر بہت بہتر نہیں ہوئے تو کم از کم بہتری کی جانب پیش رفت ضرور ہوتی رہی اب یہ الگ بات ہے کہ ان بہتری کے لئے کی جانے والی کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں نواز شریف اٹل بہاری واجپائی کو مینار پاکستان تک لانے میں کامیاب ہوا جہاں واجپائی نے کھلے عام پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا مگر اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کی نواز حکومت کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کارگل کا محاذ کھول دیا جس سے چھٹکارا پانے کے لئے نواز شریف کو امریکہ یاترا کرنا پڑی تب جا کے یہ معاملہ ٹھنڈا ہوا اس معاملے میں جنرل جمشید گلزار کیانی مرحوم ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے نواز شریف کو کریڈٹ دیا کہ اس وقت اس نے قوم اور فوج کی عزت بچائی مگر ہمارے کچھ دانشور حلقے آج بھی نواز شریف پر الزام دھرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں-

نوازشریف پر ایک بڑا الزام کہ وہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے نہیں کرنا چاہتا تھا صریحا غلط ہے بجا کہ نواز شریف نے حسب عادت اس وقت بھی طویل سوچ بچار اور مشاورت کا عمل آغاز کر دیا تھا اپنے دوست اور ہمدرد ممالک کے سربراہان سے مشاورت، اپنی ملٹری اور سول بیوروکریسی کے ساتھ مشاورت، اپنی کابینہ اور قریبی رفقاء کے ساتھ مشاورت، معروف اور سینئر صحافیوں کے ساتھ مشاورت اس تمام تر مشاورتی عمل میں کچھ وقت تو لگنا ہی تھا مگر ہمارے ہاں شوروغوغا شروع ہو گیا کہ نواز شریف ایٹمی دھماکوں سے کنی کترا رہا ہے مگر مشاورت کے عمل کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اربوں ڈالر کی امداد کے لالچ اور دھمکیاں بھی نواز شریف کوایٹمی دھماکے کرنے سے باز نہ رکھ سکے کہ فیصلہ تو اس نے پہلے ہی دن کر لیا تھا مگر بعد میں لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کا کوئی حل اس طویل مشاورت کے بغیر نکالنا ممکنات میں سے نہ تھا-

نواز شریف نہیں مانا کہ اس وقت کے چیف جنرل جہانگیر کرامت نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیل کے ذریعے کردار چاہتے تھے مگر نواز شریف سول بالادستی کے نظریہ پر ڈٹ گئے اور معاملات یہاں تک پہنچے کہ جنرل جہانگیر کرامت کو گھر جانا پڑا- نواز شریف اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی نہیں مانا تو انہوں نے 58/2B کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری حکومت کا گلا گھونٹ دیا مگر نواز شریف اس حکم کو بھی نہ مانتے ہوئے عدالت عظمی چلے گئے جہاں سے حکومت کی بحالی کے احکامات صادر ہوئے گو کہ حالات ایسے بن چکے تھے کہ حکومتی معاملات چلانا دشوار ہو گیا تھا اس لئے جنرل وحید کاکڑ فارمولا عمل میں لایا گیا اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی گھر جانا پڑا – پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں فاصلے بڑھ گئے جس کے نتیجے میں نواز شریف کو نہ صرف اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا بلکہ ایک معاہدہ کے تحت جلاوطن بھی ہونا پڑا نواز شریف معاہدے سے انکاری رہے لیکن معاہدہ تو بہرحال موجود تھا جو بعد میں سامنے بھی آ گیا طویل عرصہ کی جلاوطنی کے بعد بالآخر نواز شریف کی ایک بار پھر وطن اور سیاست میں واپسی ہوئی 2008 میں وہ پنجاب حکومت اور 2013 میں بھاری اکثریت سے پنجاب کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے-

نواز شریف کا یہ آخری دور اقتدار بھی میں نہ مانوں کی نذر ہو گیا سول بالادستی کے نظریہ کو اس بار بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا گو کہ اس بار نہ تو مارشل لاء لگا اور نہ 58/2B کی تلوار چلی- نواز شریف ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پہلے گھر اور پھر جیل چلے گئے یہ جیل جانا انہوں نے ایسے قبول کیا کہ رفقاء کے منع کرنے کے باوجود برطانیہ سے اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر پہلے اڈیالہ اور اب کوٹ لکھ پت جیل کو اپنا مسکن بنا لیا واقفان حال جانتے ہیں کہ اس دوران نواز شریف کو بار بار مفاہمت کی پیش کش کی گئی مگر نواز شریف نے ماننے سے انکار کر دیا دوبار وزارت اعلی اور تین بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف نے اپنے مختلف ادوار میں لاتعداد غلطیاں کیں جن میں سے سب سے بڑی غلطی اپنی طاقت کے مرکز پارلیمان کو اہمیت نہ دینا ہے عدالت سے تاحیات نااہلی اور اپنی جماعت کی صدارت سے بے دخلی کے بعد تاحال نواز شریف نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے اگر وہ اس پر قائم رہتے ہیں تو پاکستان میں سول بالادستی بھی قائم ہو جائے گی اور ووٹ کو عزت بھی ملے گی لیکن اگر اب بھی انہوں نے عوامی اور ملکی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور طاقتور حلقوں کے ساتھ مفاہمت کر لی تو سول بالادستی اور ووٹ کی عزت بس کھوکھلے نعروں کے طور پر باقی رہ جائیں گے باخبر ذرائع کے مطابق فی الحال تو نواز شریف نہیں مانا…!

اپنا تبصرہ بھیجیں