باتوں باتوں میں… طارق بٹ … گرگٹ کے بدلتے رنگ

… میری طرح دیہات میں بسنے والے دوستوں میں سے اکثر نے گرگٹ اور اس کے پل پل بدلتے رنگوں کا اکثر مشاہدہ کیا ہو گا مگر شہری بابو عام طور پر ان مشاہدات سے محروم رہتے ہیں ہاں البتہ انہیں گرگٹ کی تصاویر اور نیشنل جیوگرافک پر متحرک رنگ بدلتے مناظر ضرور دیکھنے کو ملے ہوں گے – جو ان سے بھی مستفید نہیں ہو سکے وہ آج کی یہ تحریر پڑھ کر گرگٹ کی صفات اور پل پل رنگ بدلنے کی صلاحیتوں سے بہ خوبی آگاہ ہو جائیں گے – مگر اس کے لئے آپ سب کو تھوڑا سا وقت اس تحریر کے مطالعہ پر سرف کرنا پڑے گا. ناچیز آپ کو زیادہ دور نہیں لے جائے گا بس آپ کو میرے ساتھ اپنے ہی وطن کی وادی پر خار سیاست کا رخ کرنا پڑے گا –

قارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک این آر او کیا تھا مگر جب وہ پرویز مشرف کی وردی اتروانے میں کامیاب ہو گئیں تو اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اس این آر او سے جان چھڑا لی تھی کیونکہ وہ مدبر اور زیرک رہنما یہ جان گئی تھیں کہ جنرل نے اس این آر او کے ذریعے انہیں جکڑ لیا ہے- مگر آصف علی زرداری نے این آر او کو تا دیر جپھا ڈالے رکھا اور سر پرستوں کی خدمات بجا لاتے رہے – اپنا 2008 سے 2013 کا دور حکمرانی انہوں نے اسی این آر او کی قید میں سر تسلیم خم کر کے گذار دیا مگر یکدم 2015 میں انہیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے چنانچہ انہوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان داغ دیا مگر وائے رے مجبوری کہ پھر ایک طویل عرصہ انہیں ملک سے باہر گذارنا پڑا – اس دوران ان کے قریبی رفقاء آزمائش میں مبتلا رہے مگر کچھ عرصہ بعد پھر سر پرستوں کو آصف علی زرداری کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ ایک بار پھر رنگ بدل کر نہ صرف وطن واپس آنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ ان کے رفقاء بھی کافی حد تک اپنے سروں سے بوجھ اترتا محسوس کرنے لگے – اس دوران نوازشریف اچھوں کی فہرست سے نکل چکے تھے اس لئے آصف زرداری کو آنکھوں کا تارا بنایا گیا اور انہوں نے بھی خدمات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی –

جب کھل کھیلنے کا موقع ملا تو آصف علی زرداری نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا اوراپنے دست راست ڈاکٹر قیوم سومرو کے ذریعے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی صفوں میں عبدالقدوس بزنجو کے ذریعے نقب لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نقب نے ایسا رخ اختیار کیا کہ پوری کی پوری مسلم لیگ ن بلوچستان آصف زرداری کی جھولی میں آ گری – زرداری کے سرپرست اس کارکردگی پر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جناب زرداری کو اگلا ہدف سینٹ کے انتخابات کا دے دیا – مشکل ہدف تھا مگر زرداری نے کچھ زر کے استعمال اور کچھ سر پرستوں کی مدد کے سہارے یہ ہدف بھی حاصل کر لیا اور اپنے سر پرستوں کے پیارے صادق سنجرانی کو چئیرمین اور اپنے رفیق خاص سلیم مانڈوی والا کو نائب چئیرمین سینٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے – اب سامنے معرکہ انتخابات 2018 کا تھا آصف زرداری اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اس بار ان کے سرپرست انہیں موقع دیں گے مگر وہاں کچھ اور ہی منصوبہ بنایا جا رہا تھا جس کا احساس زرداری صاحب کو اس وقت ہوا جب نتائج سامنے آ گئے انہیں جھٹکا تو بہت شدید لگا مگر سندھ کی حکومت ملنے پر انہوں نے پھر سر تسلیم خم کر لیا –

گرگٹ ایک بار پھر رنگ بدلنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ سر پرستوں نے اب اس کی بجائے کسی اور کو گود لے لیا ہے اور جسے گود لیا ہے اس نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں جو نعرہ پوری شد و مد سے جاری رکھا وہ کرپشن مخالف تھا جس سے یو ٹرن لینا عمران خان کی سیاسی موت ہو سکتی ہے اس لئے وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس حد تک چلے گئے ہیں کہ کرپشن کے خلاف عدالتوں اور اداروں کے کئے جانے والے اقدامات کو بھی اپنے کھاتے میں لینے سے ذرا برابر بھی نہیں ہچکچاتے یہی وجہ ہے کہ جناب زرداری کو ایک بار پھر رنگ بدلنا پڑ رہا ہے گو کہ اس کے پیچھے وہ شدید دباو ہے جو بے نامی اکاونٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سامنے آیا مگر مفاہمت کے بادشاہ اپنی گفتار سے سر پرستوں کو مفاہمت پر مائل کرنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں جو موجودہ حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے باوجود زرداری صاحب کا اختیار کیا ہوا رویہ اور رنگ نہ صرف انہیں بلکہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو نئی زندگی دے سکتا ہے-

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے جب جب سر پرستوں کی چھتری کے سائے تلے سیاست کرنے کی کوشش کی سائے کی ٹھنڈ کی بدولت پوری پارٹی منجمد ہوئی مگر جیسے ہی قیادت اور پارٹی اس سائے کے نیچے سے نکلی پارٹی کی قیادت اور کارکنان میں وہ حرارت دیکھنے کو ملی کہ سیاست بھی عش عش کر اٹھی – اگر زرداری صاحب نے بلاول کے جوان اور گرم خون سے فائدہ اٹھانا ہے تو اسے سر پرستوں کی چھتری کے سائے سے بچائیں ورنہ یہ خون بھی ٹھنڈا ہو جائے گا ویسے بھی وقت کا تقاضا ہے کہ آصف علی زرداری حسب سابق اپنے خلاف بنائے جانے والے کیسوں کا عدالتوں میں مقابلہ کریں اور سیاسی میدان میں اس سیاسی رنگ کو واپس لائیں جس کے ان کی پارٹی کے کارکنان عادی ہیں اس وقت پیپلز پارٹی کو اپنی چھوڑی ہوئی جگہ حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ مسلم لیگ ن اپنی قیادت کے مشکلات میں گھرنے کی وجہ سے شش و پنج میں مبتلا ہے جب کہ دوسری جانب تبدیلی سرکار بھی اپنے وعدوں اور دعوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی –

لوہا گرم ہے بس چوٹ پر چوٹ لگاتے چلے جانا ہے جو گرم جوش انداز گزشتہ کچھ عرصے سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے اپنا رکھا ہے اگر یہی انداز جاری رکھا گیا تو وہ اپنے کارکنان میں ولولہ تازہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ مرد حر نے جس مردانگی سے تقریبا 11 سال جیل کاٹی اور عدالتوں میں تاریخیں بھگتتےہوئے اپنے آپ کو سابقہ تمام کیسوں سے بری کروا لیا اس نے کارکنان کے ذہنوں میں یہ عقیدہ پختہ کر دیا ہے کہ زرداری قصوروار نہیں اسے صرف نشانہ بنایا جاتا ہے اس عقیدے کو کیش کرانے کا اس سے بہتر وقت پیپلز پارٹی کو شائید دوبارہ نہ مل پائے مگر اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت اپنے موجودہ پر ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہے اگر آصف علی زرداری نے پھر گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا تو پھر نہ خدا ملے گا اور نہ ہی وصال صنم …!

اپنا تبصرہ بھیجیں