باتوں باتوں میں۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ صداقت نہیں

۔۔۔ دونوں خواتین نے ایک جیسے بوجھ کی گٹھڑیاں سر پہ اٹھا رکھی تھیں ۔ وہ دونوں نہ صرف ہم سفر تھیں بلکہ دونوں کی منزل مقصود بھی ایک ہی تھی۔ اُن میں سے ایک ہنستے مسکراتے باتیں کرتے منزل کی جانب رواں تھی جب کہ اُس کی ہم سفر بوجھ اور کٹھن سفر پر مسلسل اپنی ناگواری کا اظہار کر رہی تھی ۔ پُر پیچ راستوں پر سفر کرتے کرتے بالآخر سفر تمام ہوا ہنستے مسکراتے سفر طے کرنے والی نے بڑے آرام سے اپنے سر سے گٹھڑی اتاری اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسی گٹھڑی پر بیٹھ کر اپنا سانس بحال کرنے لگی جب کہ دوسری نے گٹھڑی زمین پر دے ماری اور زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھتے ہوئے لگی اپنی قسمت کو کوسنے ۔ ایسے مناظر میں نے اپنی زندگی میں لا تعداد بار دیکھے امید ہے کہ آپ کے مشائدے میں بھی ضرور آئے ہوں گے ۔ متضاد رویوں کی ایسی بےشمار داستانیں ہمارے ارد گرد پھیلی ملتی ہیں ۔

انہی متضاد رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے رویے کا جائزہ لیتے ہیں 31 مئی 2018 کو مسلم لیگ کی حکومت نے اقتدار نگرانوں کے سپرد کیا اس تاریخ سے پہلے والے دور پر نظر ڈالیں تو آپ کو کسی جانب سے معاشی بے حالی یا خزانہ خالی ہونے کی آہ و بکا سنائی نہیں دے گی ۔ حالانکہ پانچ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے نہ صرف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا بلکہ کافی حد تک دہشتگردی کے عفریت پر قابو بھی پا لیا جس کے بعد آپریشن ردالفساد شروع کا گیا جو تاحال جاری ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں امن اور روشنیاں واپس لوٹنا شروع ہو چکی ہیں ۔ ان دونوں کارروائیوں پر ظاہر ہے پاکستان کا کثیر سرمایہ خرچ ہوا اور ہو بھی رہا ہے ۔مگر اس کے باوجود اس وقت کی حکومت نے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اربوں روپے کے نئے منصوبہ جات مکمل کر کے ملک سے اندھیروں کا ممکن حد تک خاتمہ کر دیا۔ جس سے صنعت کا پہیہ چلنا شروع ہو گیا اور عوام کو دوبارہ سے روزگار کے مواقع میسر آنے لگے ۔ اسی دوران میں لاہور ، راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میٹرو بس سروس کے منصوبے نہ صرف مکمل ہوئے بلکہ عوام آج بھی ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود لاہور میں اورنج لائین ٹرین کا منصوبہ بھی اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ قابل ذکر موٹر وے سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہزاروں کلو میٹر سڑکیں دیہات کو شہروں سے ملانے کےلئے بھی اسی دور میں بنیں۔ تعلیم اور صحت ک بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے نئے اسکول، کالج ، یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ ریلوے اسٹیشنوں اور ائر پورٹس کی تزئین اور تعمیر و مرمت کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ ملک بھر کے کسانوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے کھاد پر سبسڈی دی گئی ۔ طلباء و طالبات کو کارکردگی کی بنیاد پر لیپ ٹاپ اور وظائف دیئے گئے اور نوجوانوں کو کاروبار کے لئے بلا سود قرضے جاری ہوئے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حجم میں بھی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا یہ تمام منصوبہ جات کھربوں روپے کے اخراجات کا تقاضہ کرتے تھے جو اس وقت کی حکومت نے شروع بھی کئے اور پایہ تکمیل تک بھی پہنچائے مگر اس دوران میں کبھی خزانہ خالی ہونے یا مر گئے ،لُٹ گئے، تباہ ہو گئے کی آواز حکومتی ایوانوں سے سنائی نہیں دی اور نہ ہی کوئی ایسی پریشانی یا بے چینی نگران حکومت کے دور میں دیکھنے کو ملی۔

پھر تبدیلی لائی گئی اور تبدیلی نے آتے ہی رونا پیٹنا اور چینخنا چلانا شروع کر دیا لُٹ گئے، تباہ ہوگئے، برباد ہوگئے، جانے والے چور اور ڈاکو تھے ملک کو لُوٹ کے کھا گئے اپنے اندرون اور بیرون ملک اکاونٹ لبا لب بھر لئے ملک کا خزانہ خالی کر گئے۔ نئے لائے گئے وزیر اعظم اور وزرا جب سے آئے ہیں چور چور ڈاکو ڈاکو کا بے سُرا گیت کورس میں گائے چلے جا رہے ہیں یہ گیت نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی گایا جا رہا ہے کہ جب سے عمران خان کے ناتواں کندھوں پر ملکی معاملات چلانے کی بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ بےچارے تو سجنا سنورنا بھی بھول گئے ہیں پھٹے پرانے بغیر استری شدہ کپڑوں کے کاسہ گدائی لئے کبھی ایک ملک کبھی دوسرا ملک مگر جب ہاتھ کچھ نہ آیا تو لانے والوں کو خود جتن کرنے پڑے تب جا کر اعلان ہوا کہ اب ہمارے خزانے میں ڈالروں کی آمد شروع ہو گئی ہے مگر اس دوران میں ڈالر کو ایسے پر لگے کہ وہ ہماری پہنچ سے بہت دور ہوتا چلا گیا بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے اشیائے خوردونوش کو اُس بلندی پر پہنچا دیا کہ عام عوام اُچک اُچک کر تھک گئے مگر اشیاء کو چھونے سے بھی قاصر ہیں۔ جب کہ ناتجربہ کار حکمران چور چور ڈاکو ڈاکو کھیل رہے ہیں۔

صادق ٹھہرائے گئے موجودہ حکمرانوں کی صداقت کا عالم یہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں پر سرعام الزام لگا دیا کہ وہ اپنے اللوں تللوں میں مگن رہے پانی ذخیرہ کرنے پر کوئی توجہ نہ دی جس سے ملک بنجر ہونے کے خدشات لاحق ہو گئے ہیں دوسرے ہی دن حقائق سامنے آ گئے کہ نواز شریف حکومت نے نہ صرف 100 ارب سے دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے زمین کی خریداری کی بلکہ اپنے آخری بجٹ میں اس ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم بھی مختص کر دی تھی۔ ایسے میں صادقوں کی جانب سے ایک اور دعوی سامنے آ گیا کہ 26 ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا ہم نے معائدہ کر لیا ہے یہ دعوی اس وقت ہوا میں اُڑ گیا جب حقیقت معلوم ہوئی کہ اس معائدہ کا تمام کریڈٹ بھی سابقہ حکومت کو جاتا ہے ۔اب بجائے اس کے کہ آئیندہ احتیاط برتی جاتی حاکم وقت نے 17 سال بعد ایگزون کو پاکستان میں لانے اور گیس کے ذخائر کی خوشخبری دے ڈالی ۔یہاں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی کہ دستاویزات سامنے آنے پر سب کو معلوم ہو گیا کہ ایگزون کی واپسی کا معائدہ بھی مسلم لیگ کی حکومت کے دور میں مئی 2017 میں ہو چکا تھا۔ اسحاق ڈار کے لندن میں دریافت کئے جانے والے فلیٹ ، برٹش ائر ویز کی پاکستان کے لئے پروازیں شروع کرنے کی حامی غرض کس کس حماقت اور دروغ گوئی کا ذکر کیا جائے کہ کالم کے لئے مختص جگہ محدود جب کہ حماقتیں بےشمار ہیں۔

موجودہ حکمرانوں کی مسلسل دروغ گوئی اور حماقتوں پر مبنی اقدامات نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں ۔ اسی لئے تو اُن میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہےکہ مزید دروغ گوئی برداشت نہیں گذشتہ انتخابات میں تو عوام نے سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں صداقت علی عباسی پر بھی اعتماد کر لیا تھا مگر دعوں اور وعدوں کے برعکس عمل سے صاف ظاہر ہوتا کہ ان کے بھی قول و فعل میں تضاد ہے اور نام کے علاوہ ان میں بھی کوئی صداقت نہیں۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں