باتوں باتوں میں۔۔۔طارق بٹ۔۔۔تبدیلی تو لانی پڑے گی

۔۔۔عمران خان کو خود یقین نہیں آ رہا کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں حالانکہ ان کی زوجہ محترمہ اکثر انہیں یقین دلاتی رہتی ہیں مگر بائیس سال اپوزیشن کی سیاست کرنے والے یکدم کیسے یقین کر لیں کہ اب وہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مالک و مختار بنا دئیے گئے ہیں تقریباً چار ماہ گذرنے کے باوجود قوم بھی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق جب قوم بے یقینی کا شکار ہے تو حکمران تو ہوں گے ہی۔ یا یوں کہہ لیں کہ جب حکمرانوں کو خود حکمران ہونے کا یقین نہیں تو قوم کیسے یقین کر لے۔ مگر ایسا کب تک چلے گا جس انداز میں موجودہ حکومت ملکی معاملات چلا رہی ہے ایسے تو ایک یونین کونسل کے معاملات بھی نہیں چلا کرتے کجا کہ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ہر اپوزیشن کا رویہ سخت ہوتا ہے اور اپوزیشن ہمیشہ حکومت کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو بڑھا کر پیش کرتی ہے مگر حکومت ہمیشہ میانہ روی اور مفاہمت سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو اپنے اور ملکی مفاد میں رام کر ہی لیا کرتی ہے لیکن عمران خان کی حکومت میں پہلے روز سے گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔

اپوزیشن کی بڑی جماعتیں باربار یقین دہانی کرا رہی ہیں کہ ان کا حکومت گرانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں بلکہ وہ ملکی معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں مگر حکومت وقت نے اپوزیشن کی اس فراخ دلانہ پیش کش کو ہمیشہ پائے حقارت سے ٹھکرایا ہے اور ایسی پیش کشوں کو اپوزیشن کی جانب سے این آر او مانگنے کے مترادف جانا ہے حالانکہ واقفان حال بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدالتی کیسوں میں حکومت وقت کے پاس این آراو دینے کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب جس بات کا اختیار ہی نہیں اس کا باربار ڈھنڈورا پیٹنے کا فائدہ ۔

اصل میں حکومت اپوزیشن کو پریشر میں رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے یہ سوچے بغیر کہ اپوزیشن کو ساتھ ملائے بغیر حکومتی معاملات کسی صورت چلائے نہیں جا سکتے۔ خصوصاً پارلیمانی معاملات کہ حکومت کے پاس نہ تو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہے اور نہ سینٹ میں ۔ آئینی ترمیمات کے لئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کا ہونا لازم ہے جہاں سادہ اکثریت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی حکومتیں اپوزیشن کی مدد سے آئینی ترامیم کیا کرتی ہیں اور حزب اختلاف کی مدد کے لئے اپنے لہجے اور رویے میں نرمی رکھا کرتی ہیں۔ مگر موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان تو رہے ایک طرف یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔وزرا میں سے اگر ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر۔ زبان درازیاں اور غلط بیانیاں اپنی انتہاوں کو چھو رہی ہیں۔

اپوزیشن کو حقائق بیان کرتے ہوئے چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ ان کی معلومات تک مکمل رسائی نہیں ہوتی مگر حکومت کہ جس کے پاس ہر محکمے اور ہر معاملے کی مستند معلومات ہونی چائیں اس کے سربراہ اور وزرا کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے اس لئے جو بھی بات کی جائے بڑے نپے تلے انداز میں ہو خود وزیر اعظم کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا کے سامنے کسی بھی معاملے پر لب کشائی سے قبل اس سے متعلق مکمل آگاہی حاصل کر لیا کریں اس طرح اپنی ہی کہی ہوئی بات سے یو ٹرن کے امکانات کم سے کم تر ہو جائیں گے وزرا کو بھی ایک دوسرے کی وزارتوں سے متعلقہ معاملات کے بارے میں بڑھ چڑھ کر اظہار خیال کرنے سے بہتر ہے کہ صرف اور صرف اپنی وزارت سے متعلقہ معاملات پر رائے زنی فرمائیں تاکہ جو بھی معلومات عوام تک پہنچیں وہ حقائق پر مبنی ہوں اور بعد میں خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

خصوصاً وزیر اعظم کہ جن کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے اور ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات پر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی طاقتیں بھی توجہ دینے پر مجبور ہوتی ہیں ہر بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں بلکہ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے حکمران ہیں بغیر سوچے سمجھے گفتگو کے ذریعے طنز کے تیر برسانے میں جہاں امریک صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں وہیں اب عالمی طور پر جناب عمران خان امریکی صدر کا بھی نمبر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں ۔عمران خان ک نیت پر ہمیں کوئی شک نہیں مگر کارکردگی کو جانچنے کا معیار نیت نہیں عمل ہوتا ہے ویسے بھی وعدوں اور دعووں کا کھیل رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے کھیلا جاتا ہے یہ کھیل عمران خان گزشتہ بائیس سال سے کھیل رہے ہیں الزامات کے حوالے سے ان کا مشہور موقف کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اپوزیشن کا تو کام ہی الزام لگانا ہوتا ہے حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے الزامات کو غلط ثابت کرے۔ اب چونکہ ثابت کرنے کو بوجھ خود ان کے کندھوں پر آن پڑا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ کندھوں کے اوپر موجود اپنے کانوں کو ڈھانپ کے رکھیں تاکہ جو بھی معاملہ یا مشورہ ان تک پہچے وہ چھلنی میں سے چھن کر آئے ۔ورنہ کنٹینر پر تو یہی دیکھا گیا کہ ان کے دائیں بائیں کھڑے جس بھی دوست نے ان کے کان میں جو بھی کہا وہ محترم نے بغیر کسی تحقیق کے فوری طور پر عوام کے گوش گذار فرما دیا ۔ تسلیم کہ اس وقت جناب اپوزیشن میں تھے آپ کا سخت گیر رویہ عوام میں پذیرائی پا رہا تھا مگر تبدیلی کے نعرے کو بام عروج تک پہنچانے والوں پر اب لازم ہے کہ وہ تبدیلی لائیں خصوصاً ابتدا اپنے رویہ کی تبدیلی سے کر لیں کہ یہ تبدیلی تو اب لانی ہی پڑے گی۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں