جیوری تحریر محمد اظہر حفیظ

1990 نیشنل کالج آف آرٹس اس لفظ کو پہلی دفعہ سنا۔ آج سکلپچر کی جیوری ھے آج ڈیزائن کی جیوری ھے آج فائن آرٹ کی جیوری ھے آج آرکیٹیکچر کی جیوری ھے۔ میں ھمیشہ اوپن جیوری کو ترجیح دیتا تھا۔ جیوری آپ کو اپنے کام کو الفاظ میں بیان کرنے کا نام تھا۔ ضمن ارمغان حاضر میرا دوست اور کمال انسان ھے کچھ سفید چارٹ لگا کر جیوری دے دی سر شیٹس لیکر دوست آرھا ھے بائیک پر اور سارا ماجرا کہہ سنایا کیا بنایا ھے یہ پہلے پلان ھے سر یہ ایلیویشن ھے سر یہ پرسپیکوٹیو ھے اور بنایا کچھ بھی نہیں تھا نمبر لگ گئے اور جب بلال قطب صاحب نے پوچھا ضمن شیٹس کہنے لگا کونسی نمبر لگ جیورر چلے گئے ۔ مجھے یاد ھے ایک دن سیکنڈ ائیر میں ڈیزائن کی جیوری تھی اظہر شیخ استاد تھے مجھے یاد نہیں تھا ھوسٹل سے نکلے تو رکشے میں کلاس فیلو نے پوچھا پوسٹر بنایا ھے کونسا جس کی 9 بجے جیوری ھے زوڈیک سائن کا اور جناب انکھیں کھل گئیں چلتے رکشے میں گلیز پیپر اور گلو کی مدد سے پوسٹر بنانا شروع کیا گہرے نیلے رنگ کا چارٹ بیگ میں تھا اور کچھ گلیز پیپر پہلے شیر کا ایک سکیچ سرخ گلیز پیپر ھاتھ سے پھاڑ کر بنایا اور لگا دیا کیونکہ میرا سائن لیو تھا اور اب نام لکھنا تھا اظہر کے انگلش میں الفاظ گلیز پیپر سے پھاڑے اے اور زیڈ پیسٹ کیا تھا اور ایچ پیسٹ کرنے لگا تو رکشے کو جمپ لگا اور وہ کچھ انچ دور پیسٹ ھوگیا وقت کم تھا کالج آنے والا تھا اے ار بھی وھیں لگائےاور کلاس میں سب سے آخر میں پوسٹر لگا دیا۔ جیوری شروع ھوگئی اور میں باقاعدہ اسٹرولوجی کو پڑھتا تھا سب کی کلاس لینا شروع کر دی ھر بندے کی جیوری میں ٹانگ اڑاتا رھا۔ جب میری باری آئی تو ایک انتہائی برا پوسٹر سامنے لگا تھا ۔ اظہر شیخ صاحب ھاں پے جاو سارے اس نوں بڑا علم اے اس کول ستاریاں دا۔ کی بنایا اے سوھنیو۔ میں گویا ھوا اسلام علیکم میں محمد اظہر حفیظ دس اگست کو پیدا ھوا میرا ستارہ لیو یعنی شیر ھے۔ اظہر شیخ صاحب پیارے شیر تو دھشت غصے بہادری کی علامت ھے اور آپ نے نیلے رنگ کی شیٹ استعمال کی ھے جی سر درست فرمایا لیکن یاد رکھیں لیو شیر میں ھوں آپ نہیں شیر اوپر سے بہادر پر اندر سے ڈرپوک اور نرم دل ھوتا ھے اس لیئے نیلا رنگ استعمال کیا ھے اچھا آگے چل اور بتا جی سر جیسا کہ آپ جیسے لوگ اس کو غصے والا سمجھتے ھیں اس لیئے شیر سرخ بنایا ھے اور سر آپ کو یہ جان کر حیرت ھوگی کہ لیو ایک بے ترتیبا انسان ھوتا ھے یہ میں نے اپنے نام میں دکھایا ھے اور میں فیل ھوتے ھوتے فرسٹ آگیا اظہر شیخ صاحب نے میرا کان پکڑا اوئے بکواس نہ کر فرسٹ آگیا ھے اب اصل بات بتا جی سر وہ رکشے میں بیٹھ کر بنایا ھے سامان بھی یہی تھا ساری کلاس ھنسنے لگی۔ یوں یہ سلسلے چلتے رھے۔ اور ھمارا اعتماد بھی بڑھتا گیا اصل میں یہ مشق تھی ھی اعتماد بڑھانے کی۔ سید اختر صاحب کی کلاس تھی پپٹ بنانا تھا مجھے بہت تیز بخار تھا نہیں بنا سکا ثمینہ احمد صاحبہ ڈائریکٹر تھی الحمرا میں انکے پاس حاضر ھوا میم کوئی پپٹ چاھیئے اور انکی کار کی سیٹ ساتھ ایک بندر لٹک رھا تھا اتارا اور چل دیا وہ شور مچاتی رہ گئیں کچھ کہہ رھیں تھیں غالبا میں کب سننے والا بائیک نکالا اور کالج پہنچ گیا سید صاحب ابھی نہیں آئے تھے جب آئے جیوری شروع ھوئی میں نے ھاتھ پر پپٹ چڑھایا پرفارم کیا ۔ سید اختر صاحب اس کا میٹریل کیا ھے سر لنڈے سے کمبل لیا تھا اس کا بنایا ھے الٹا کیا اس کی سلائیاں دکھائیں ۔ سید اختر صاحب نے مجھے ھاتھ سے پکڑا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیئے تینوں تے بڑا تیز بخار اے مجھے کوئی گولی دی کھانے کو چائے پلائی ھنس کر کہنے لگے مجھے یقین ھے یہ تم نے ھی بنایا ھے جتنی تفصیل تم نے بتائی ھے پر یاد رکھنا یہ ثمینہ احمد کو میں نے گفٹ کیا تھا باھر سے لایا تھا۔ جیوری کا سلسلہ چلتا رھا ماسک بنانا تھا لاھور گرامر سکول سے ایک بیل کا ھیڈ لیا میری کلاس فیلو راضیہ سید کی بہن وھاں پڑھاتی تھی بہت خوبصورت ماسک تھا۔ میں نے گھنٹی لیکر اسکے گلے میں باندھی اور سر پر پہن لیا ظہورالاخلاق مرحوم جیورر تھے بہت پسند کیا۔ کہنے لگے بھئی میاں ایسا ایک گرامر سکول میں بھی دیکھا تھا پر تمھارا والا بہتر ھے اسکے گلے میں گھنٹی کم تھی یہ زیادہ مکمل اور اچھا ھے۔ چار سال دیکھتے ھی دیکھتے گزر گئے۔ تھیسزز آگیا تین جیورر تھے ایک انٹیریر ڈیزائنر ایک ٹیکسٹائل ڈیزائنر اور ایک پینٹر میرا تھیسزز کونیکا فلم پر تھا میں نے پہلے انکو فوٹوگرافی کے بارے میں بتایا ایم ایچ جعفری صاحب یہ کیا کر رھے ھیں سر انکو فوٹوگرافی کے بارے میں بتا رھا ھوں کیونکہ انکی فیلڈ نہیں ھے یہ جان سکیں اور سوال پوچھ سکیں۔ جیورر ناراض ھوگئے بہت سا کام کرنے کے باوجود میں پاس ھوگیا شکر الحمدللہ۔ جیوری دینا ھمارے لیئے ایک شغل تھا۔ بہت مزا آتا تھا پھر جب یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کیا تو حیران رہ گیا پینٹ کوٹ ٹائی ایک ضروری عنصر تھا بی بی اے اور ایم بی اے کی جیوری اور پریزینٹیشن کا۔ عجیب کلرک تیار ھو رھے تھے بس دیکھ کر مسکرا دیتا خاص طور پر مئی جون کے مہینے میں جو جیوری ھوتی تھی کل این سی اے لاھور میں جیوری تھی اور آج این سی اے راولپنڈی میں جیوری ھے بہت سی دعائیں سب سٹوڈنٹس کیلئے اللہ انکو کامیاب کریں امین فائنل ائیر کے سٹوڈنٹس کیلئے جیوری ایک عام سی چیز ھے کیونکہ یہ نیشنل کالج آف آرٹس ھے یہ اعتماد ھی دیتا ھے خود پر یقین کرنا سکھاتا ھے ۔ میری دوست کا بھی آج تھیسزز ھے جیوری ھے انشاءاللہ کامیابی ھوگی۔ اور بہترین کام دیکھنے کو ملے گا۔ ساری کلاس کیلئے دعا کی درخواست ھے اللہ کامیابیاں دیں امین۔چار سال بعد میری بیٹی کا بھی تھیسزز ھوگا اور جیوری بھی اور انشاءاللہ کامیابی بھی۔
پہلے کام پر جیوری ھوتی تھی اب ھر کام پر جیوری اور جیورر میری بیوی اور چار بیٹیاں ھیں اور میں سادہ سا نیشنل کالج آف آرٹس لاھور کا ڈگری یافتہ فنکار۔

اپنا تبصرہ بھیجیں