باتوں باتوں میں… طارق بٹ… ایک سیلفی ہو جائے

…برطانیہ میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے وہاں جانے والے پاکستانی اور کشمیری سیاست دانوں کے ساتھ واسطہ پڑتا رہا اس طرح انہیں قریب سے جاننے کا موقع ملا وہاں بسنے والے پاکستانی اور کشمیری بہن بھائیوں سے نشستیں رہیں چنانچہ ان کے مزاج اور رکھ رکھاو سے بھی آگاہی ہوتی رہی اکثر دیکھا کہ جب بھی پاکستان یا کشمیر سے کوئی سیاسی رہنما برطانیہ گئے تو وہاں موجود پاکستانیوں اور کشمیریوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا یہ نہیں کہ انہیں ان لیڈروں کے ساتھ بہت محبت ہے بلکہ صرف اور صرف اپنے آپ کو اپنی برادری میں نمایاں کرنے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ان مہمانوں کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں جس میں اپنی برادری اور عزیز و اقارب کو مدعو کیا جاتا ہے اس تقریب میں خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے کہ اسٹیج پر مہمان کے ساتھ والی نشست میزبان یا یوں کہہ لیں کہ پیسہ لگانے والے کے لئے مخصوص ہو فوٹوگرافر کی تقریب میں حاضری باقی تمام انتظامات پر مقدم ہوتی ہے کہ اس نے سیاسی لیڈر اور میزبان کے خصوصی فوٹو بنانے ہوتے ہیں جو میزبان نے اپنے گھر کے فرنٹ روم میں لگا کر اپنے تعلقات کی تشہیر کرنی ہوتی ہے یوں ایک فوٹو کے حصول کے لئے ہزاروں پاونڈ خرچ کئے جاتے ہیں مگر جب یہی میزبان پاکستان یا کشمیر آکر ان لیڈر صاحب سے ملاقات کے لئے کوشاں ہوتا ہے تو صاحب اقتدار لیڈر انہیں گھاس تک ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے-

تب موبائل فون عام نہیں تھا اس لئے فوٹوگرافر حضرات کے نخرے بھی عروج پر تھے کہ اگر کسی محفل میں کسی سیاسی لیڈر یا کسی فنکار کے ساتھ کسی کی تصویر لے لیتے تو ٹھیک ٹھاک پیسے لے کر تصویر بنا کر دیا کرتے تھے اب تو موبائل فون کی صورت میں بچے بچے کے ہاتھ میں کیمرہ آ گیا ہے اس لئے جب بھی جہاں بھی موقع دیکھا عرضی داغ دی جاتی ہے ایک سیلفی ہو جائے پلیز –

جوں جوں پاکستان تحریک انصاف کو عروج ملتا گیا یہ سیلفی گروپ بھی ترقی کی منازل طے کرتا گیا آج پاکستان کی ہر گلی اور محلے میں آپ کو ایسے نوجوانوں کے ٹولے مل جائیں گے جن کا شمار عمران خان کے پرستاروں اور تحریک انصاف کے جانثاروں میں ہوتا ہے حرام ہے اگر ان میں سے اکثر جوانوں کو محکمانہ معاملات یا کسی بھی ترقیاتی کام کے کروانے کا طریقہ کار معلوم ہو انہیں اگر معلوم ہے تو صرف اور صرف اتنا کہ اپنے کسی بھی لیڈر کے اسٹیج پر قبضہ کیسے کرنا ہے اور لیڈر کی تقریر کے دوران عین اس کے دائیں بائیں اپنا آپ کیسے رکھنا ہے تاکہ میڈیا کے ذریعے چہرہ مبارک زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے اور پھر بھری محفلوں میں بیٹھ کر بتایا جا سکے کہ دیکھا جب فلاں اسٹیج پر خان صاحب تقریر فرما رہے تھے تو میں ان کے بائیں جانب موجود تھا اگر یقین نہیں تو یہ اس وقت کی سیلفی دیکھ لیں-

2011 میں مینار پاکستان جلسے نے جب تحریک انصاف میں تحرک پیدا کیا تو بہت سارے جہاندیدہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی جماعت کا حصہ بنی یہ وہی دور تھا جب تحریک انصاف کی طرف سے کبھی کسی نوجوان درزی ، کبھی رکشہ ڈرائیور، کبھی کارپینٹر اور کبھی کسی ریڑھی والے کے اشتہارات ٹیلی ویژن پر چلا کرتے تھے جس میں وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ میرا نام فلاں ہے اور میں ہوں تحریک انصاف- یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا اور قائد تحریک جناب عمران خان بھی ان کی بے پناہ حوصلہ افزائی فرما تے رہے کہ یہ ہیں تحریک انصاف کا اصل سرمایہ اور آئیندہ جب بھی الیکشن ہوئے ہم انہی نوجوانوں کو ٹکٹ دے کر اسمبلیوں تک پہنچائیں گے پھر دنیا نے دیکھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت سردار آصف احمد علی ، خورشید قصوری اور ملک غلام مصطفے کھر جیسے بیسیوں نوجوان ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور درزی اور رکشہ ڈرائیور ان ٹکٹ ہولڈر نوجوانوں کے ساتھ صرف سیلفی بنا کر گذارا کرنے پر مجبور ہوئے –

پارٹی ٹکٹوں سے محروم رہنے والے یہ نوجوان بے چارے اسمبلیوں میں تو نہ پہنچ سکے کہ ضرورت ایجاد کی ماں کا نظریہ اپنانے کے بعد الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے (الیکٹیبلز) عمران خان کی ضرورت اور مجبوری بن گئے اور آج انہی کے بل بوتے پر محترم وزیر اعظم پاکستان بنے ہوئے ہیں اب ایسی بلند قامت سیاسی ہستیوں کی موجودگی میں درزی یا رکشہ ڈرائیور کی دال گلے بھی تو کیسے ؟ مگر انہیں ناراض بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا چنانچہ ہر حلقے میں جیتنے والے نے اپنے ان تاحیات کارکنان کو خوش کرنے کے لئے کمیٹیاں بنانے کی ٹھانی لی اور ایک ایک یونین کونسل میں دس دس گیارہ گیارہ کمیٹیاں بنا دیں ان کمیٹیوں کے پاس اختیار تو کچھ نہیں مگر اپنی ٹور بنانے کے لئے کبھی ایک محکمے اور کبھی دوسرے کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہتی ہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ان کمیٹیوں کی جب کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی تو کسی نہ کسی محکمے کے سربراہ کے ساتھ لی جانے والی سیلفی فیس بک پر اپ لوڈ کر کے دل خوش کر لیا جاتا ہے-
اس موقع پر مجھے اپنے علاقے کی ایک انتہائی معروف اور ہمدرد شخصیت ایوب کیانی مرحوم بہت یاد آ رہے ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کے اولین دور میں ممبر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظروں میں بہت عزت رکھتے تھے ایک بار کسی سائل نے کام کی غرض سے ساتھ لیا اور انہیں راجہ شاہد ظفر کے دفتر لے گئے راجہ صاحب نے انہیں بہت عزت اور احترام دیا خوب خاطر تواضع بھی کی اور کافی دیر تک حلقے اور ملک کے سیاسی معاملات پر بات چیت کرتے رہے بالآخر ایوب کیانی صاحب نے اجازت طلب کی اور دفتر سے باہر آ گئے راستے میں سائل جو انہیں اپنے ضروری کام کے سلسلے میں ساتھ سفارشی لے کر آیا تھا اس نے پوچھا کیانی صاحب میرے کام کا کیا بنا تو ایوب کیانی مرحوم نے انتہائی سادگی کے ساتھ جواب دیا یرا تہاڈے مسئلے اپر تے گل ای نہیں ٹری ( یار آپ کے مسئلے پر تو بات ہی نہیں ہوئی) اگر وہ بھی سیلفی کا دور ہوتا تو ایوب کیانی مرحوم کم از کم راجہ شاہد ظفر (جو اس وقت وزیر تھے) سے اتنا تو کہہ ہی سکتے تھے ایک سیلفی ہو جائے – مگر کیا کرتے سیلفی کا اس وقت فیس بک بھی تو نہیں تھی نا…!

اپنا تبصرہ بھیجیں