بلوچستان: کشیدگی کا براہ راست اثر مہاجرین کے بچوں اور خواتین پر پڑ رہا ہے

 دسمبر25 2018, کو افغانستان کے شہر قندہار میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سرکردہ کمانڈر اسلم بلوچ اور ان کے چھ ساتھیوں کی ہلاکت بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے جس نے پہلی مرتبہ حکومت پاکستان کے ان دعووں کی تصدیق کی ہے کہ بلوچ تنظیمیں افغانستان سے پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں کررہی ہیں۔

تاہم بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی کی طرف سے ٹوئٹر پر پڑوسی ملک میں ہونے والے خود کش حملے اور اس کے نتیجے میں چھ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کو ٹوئٹر پر ’گریٹ نیوز‘ کہنے نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اصل میں کس کا ہاتھ ہے اور اس کے بلوچستان میں جاری مسلح تحریک پر کیا اثر پڑے گا۔

2006 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت اور مری و بگٹی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد کئی بلوچوں نے سندھ اور پنجاب سمیت افغانستان کی طرف ہجرت کی۔

افغانستان میں بلوچوں کی موجودگی اسلام آباد اور کابل کے مابین اس وقت تک کشیدگی کا باعث رہی جب تک نواب بگٹی کے پوتے اور بلوچ رپبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سوئٹزلینڈ منتقل نہیں ہو گئے۔

بلوچستان میں جاری کشیدگی کا براہ راست اثر بلوچ مہاجرین کے بچوں اور خواتین پڑ رہا ہے۔ قوم پرست افغانستان میں موجودگی کا اس لیے کھلے الفاظ میں اعتراف نہیں کرتے کہ کہیں پاکستانی اہلکاروں کو ان کے ٹھکانوں کا پتہ نہ چلے جب کہ وہ تعلیم اور علاج و معالجہ کی سہولیات کی اشد ضرورت کے باجود مہاجرین کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے اس خوف سے رابطہ نہیں کرتے کہ کہیں اس سے ان کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ بیشتر بلوچ افغانستان کے ان علاقوں میں مقیم ہیں جہاں افغان بلوچوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔

بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ کئی بلوچ افغانستان میں انڈین اور افغان خفیہ اداروں کی امداد سے تربیتی کیمپ چلارہے ہیں جن کا مقصد بلوچستان کی

خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے بلوچ عسکریت پسند کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو

شورش کو ہوا دینا ہے۔

بلوچ قوم پرست ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔2007 میں بلوچ قوم پرست رہنما نوابزادہ بالاج مری کی افغانستان کی سرحد پر ہلاکت کے بعد اسلم بلوچ ہلاک ہونے والے بی ایل اے کے اہم ترین رہنما ہیں۔ ان کا تعلق مری قبیلے سے نہیں تھا بلکہ وہ بلوچ مسلح تحریک کے اس طبقے کے نمائندہ تھے جن کا صوبے کے پڑھے لکھے متوسط طبقہ سے تعلق تھا۔

اسلم بلوچ کا تعلق ضلع مستونگ سے تھا اور ان کا شمار بی ایل اے کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ زیر زمین تنظیم میں اتنے مضبوط ہو گئے کہ انھوں نے بی ایل اے کے طریقۂ کار اور حکمت عملی پر سوالات اٹھانا شروع کیا۔

وہ چاہتے تھے کہ بی ایل اے مری قبیلے کے مخصوص افراد کے ہاتھوں سے نکل کر ایک ادارہ بن جائے جس میں احتساب اور شفاف طریقہ کار ہو۔ ان اختلافات کی بنیاد پر انھیں بی ایل سے نکالنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن وہ اتنے سینیئر تھے کہ انھیں نکالنا ناممکن ہو گیا اور خود انہی اختلافات کی بنیاد پر بی ایل اے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی اور یونائٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم ہو گئی۔

حکومت بلوچستان کے سابق ترجمان انوار کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت اور بلوچوں کے درمیان وقتاً فوقتاً غیر سرکاری ذرائع کے ذریعے روابط ہوتے رہتے ہیں لیکن فی الحال حکومت بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہی۔

چھلے سال کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے اور اس کے فوری بعد ایک اہم بلوچ کمانڈر کی ہلاکت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آنے والے وقت میں افغانستان بلوچ قوم پرستوں کے لیے مزید محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں افواج کی تعداد میں تخفیف کو دیکھ کر پاکستانی اہل کار خوش اور بلوچ قوم پرست پریشان نظر آتے ہیں۔

اگر اسلام آباد نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ افغانستان میں موجود بلوچوں کے مبینہ ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان افغانستان سے بلوچوں کی واپسی کے لیے کوئی جامع منصوبہ تیار کر رہی ہے یا ان کی وہاں سے جبری واپسی پر ایک نیا انسانی بحران پیدا ہو گا۔

جب ستر کی دہائی میں افغانستان جانے والے بلوچ مہاجرین کو 90 کی دہائی میں واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کے بلوچ قومی تحریک پر معمولی اثرات پڑے اور قوم پرست تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گئے۔ جہاں ایک طرف حکومت مخالف رہنما میر ہزار خان نے مستقل طور پر فوج کا حامی بننے کا فیصلہ کیا تو دوسری طرف نواب خیر بخش مری پر یہ الزام لگا کہ وہ خود تو فوجی جہاز کے ذریعے وطن واپس آئے لیکن ان کے قبیلے کے لوگ واپسی کے کئی سال بعد بھی باضابطہ طور پر بحال نہیں ہو سکے اور کوئٹہ کے مضافات میں نیو کاہان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر بلوچ مہاجرین کا مستقبل بھی غیر یقینی کا شکارنظر آ رہا ہے۔کیا یہ لوگ واپسی پر اپنے گھروں میں جاسکیں گے یا انھیں کہیں اور منتقل کیا جائے گا؟ بلوچستان کا قضیہ اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے فوری بعد دوسرا مسئلہ کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

ملک سراج اکبر
بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں