Site icon

آئمہ مساجد و مدرسین کی حالت زار


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لمحہ موجود میں پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ ، وزیر اعظم ہاؤس اور وزارت خزانہ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آزاد ادارے نہیں بلکہ محض ڈاکخانے بن کر رہ گئے ہیں، عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جو حکم آتا ہے ہمارے اِن اداروں کا کام اُسے من و عن ملک و قوم پر مسلط کرنا ہے۔

ان فیصلوں کے عوام کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ کسی کو کوئی پروا نہیں۔ 1948سے لے کر آج تک پاکستان امریکی غلامی سے باہر نہیں نکلا، پاکستان کی معاشی خودمختاری چونکہ امریکا کے مفادات کے خلاف تھی اس لیے امریکا نے حقیقی معاشی ترقی نہیں ہونے دی اور ترقی کے نام پر اس کے سہولت کار جیبیں بھرتے رہے، پاکستان کو لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بناتے رہے اور بنا رہے ہیں۔

سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے اجتماعی مفادات کے بجائے انفرادی مفادات کے تحت پالیسیاں بنائیں، مال سمیٹا اور جب اپنا انٹرسٹ ختم ہوا  تو پالیسیاں بدل دیں۔ دانستہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھا کر رکھا گیا تا کہ ہم معاشی ترقی کی بجائے اپنی بقاکے خوف میں مبتلا رہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ اس “پولیٹیکل اکانومی” کو “ریگولر اکانومی” بنانے کی سنجیدہ کوشش کسی دور میں نہیں کی گئی۔ پاکستانی قوم اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی و سیاسی بحران کے باعث شدید خلجان میں مبتلا ہے۔ 75سال میں ایسی مایوسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

اقتصادی ترقی اور تنزلی پر بات کرتے ہوئے تین طبقات کا ذکر ہوتا ہے۔ ایک طبقہ اشرافیہ کا، دوسرا درمیانہ طبقہ یا مڈل کلاس اور تیسرا خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والا غریب طبقہ۔ حکومت کی غلامانہ اور ظالمانہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مڈل کلاس ختم ہو کر رہ گئی ہے، گزشتہ تین برسوں میں جس تیزی سے مڈل کلاس خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یوٹیلٹی بلوں میں ہوشربا ٹیکسوں کی بھرمار اور سلیب ریٹس کی لمبی چھلانگوں کو عوام ریاستی ڈاکہ قرار دے رہے ہیں۔

جس سے ہر طبقہ شدید کوفت و پریشانی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ حالات میں عوام دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں، مارکیٹوں اور بازاروں میں دکاندار فارغ بیٹھے ہیں۔ ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، کئی پرائیویٹ اداروں میں تنخواہیں کم ہوئی، ڈاکٹرز، پیرا میڈکس، آئل ڈیلرز، ملز مالکان ہرکوئی سراپا احتجاج ہے۔ مہنگائی کے اس بدترین دور میں سب کی نظروں سے اوجھل سفید پوش آئمہ مساجد اور مدرسین کی حالت قابل رحم ہے۔ لیکن صبر و شکر کے یہ پیکر نہ ہڑتال کرتے ہیں نہ احتجاج، کبھی ایک دن ناغہ نہیں کیا۔ انبیاء کے وارث آئمہ و علمائے کرام اللہ رب العزت کا دین ہم تک پہنچا رہے ہیں، ہمیں بھلائی کا راستہ دکھاتے ہیں، برائی سے دور رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

ہماری نمازوں کے امام ہیں، ہمارے فوت شدگان کو غسل دیتے ہیں ان کے جنازے پڑھاتے ہیں، انھیں سنت کے مطابق لحد میں اتارتے ہیں، ہمیں اور ہمارے بچوں کو قرآن اور احکامات دین سکھاتے ہیں، ہمارے نومولود بچوں کے کانوں میں اذان دیتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کے نکاح پڑھاتے ہیں، باطل فتنوں سے ہمیں محفوظ رکھنے کے لیے عمر بھر جدوجہد کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنی سب سے قیمتی دولت یعنی اپنا ایمان بچا کر قبر تک لے جائیں اور اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔

وہ علماء آج مہنگائی اور غربت کے اس دور میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پس رہے ہیں اور اپنی زبان سے شکایت کا ایک لفظ ادا نہیں کرتے، ان بیچاروں پر تو کم از کم تنخواہ کا قانون بھی لاگو نہیں ہوتا، اربوں کھربوں کے لوٹ مار بجٹ میں ان کے لیے ایک روپیہ تک مختص نہیں ہوتا، اور عوام خود معاشی تنگدستی کے شکنجے میں پھنس کر رہ گئے ہیں تو مساجد و مدارس کے لیے کہاں سے پیسہ لائیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے شکار عوام کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہے۔

ماضی کے مخیر حضرات بھی معاشی بدحالی کا شکار ہیں، جس بنا پر مساجد اور مدارس کی آمدن میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے، بے شمار مدارس تو مقروض ہوچکے ہیں، کیونکہ ان کے اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور آمدن میں انتہائی کمی آچکی ہے، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے نے ہی سارے بجٹ کا ستیا ناس کردیا ہے، کہ باقی کاموں کے لیے پیسے ہی نہیں بچتے۔ حالانکہ آئمہ کرام و مدرسین بیچارے کے اعزازیئے بڑے شہروں میں بھی پندرہ بیس بیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں، جس میں دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی، اگر کوئی بچہ بیمار پڑ جائے تو دوا کے لیے پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔

آج مزدور کی مزدوری بھی بڑھ چکی ہے، اس مہنگائی کے دور میں پرانی قیمت پر ملنے والی صرف تین چیزیں ہیں مسجد کا امام اور مدرسے کا استاد اور دینی تعلیم۔ نکاح اور ولیمہ کی تقریب پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر نکاح خواں کو 500 روپے دیتے وقت جان جاتی ہے حالانکہ نکاح ایک شرعی حکم ہے جب کہ شادی ہال کا مالک منہ پھاڑ کر پیسے مانگتا ہے اور ہم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔ حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس بھی منہ پھاڑ کر پیسے مانگتے ہیں اور ہم ادا کرتے ہیں۔ ختنے کرانا ایک فطری و شرعی حکم ہے مگر ڈاکٹرمنہ پھاڑ کر پیسے مانگتے ہیں اور ہم ادا کرتے ہیں۔ قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی منہ مانگی اجرت مانگتا ہے اور ہم ادا کرتے ہیں۔ تعلیم ایک شرعی حکم ہے مگرتعلیمی ادارے بھاری فیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم ادا کرتے ہیں۔

مسجد کی تعمیر نیکی کا کام ہے مگر مستری و مزدور پھر بھی پیسے مانگتے ہیں، ہم ادا کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے مگر پبلشرز پھر بھی قیمت مانگتے ہیں اور ہم ادا کرتے ہیں۔ اس سے نہ کسی کو ان سب کے تقویٰ پر شک ہوتا ہے نہ کوئی انھیں دنیا دار لالچی کہتا ہے، نہ وہ دین فروش بنتے ہیں، نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام کہا جاتا ہے اور نماز، خطبہ جمعہ و عید، تراویح، درس وتدریس یہ سب بھی شرعی احکام ہیں مگر جب امام کے اور خطیب کے مدرس ہر طرف سے مجبور ہو کر، اپنے دل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے کبھی اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کردے یا تنخواہ طے کر لے یا تنخواہ لیٹ ہونے پر شکوہ کردے تو بس پھر وہ دنیا دار بن جاتا ہے دین فروش کہلاتا ہے لالچی ہوتا ہے تقویٰ سے خالی ہوتا ہے۔

صرف علماء کرام اور آئمہ مساجد کے ساتھ ہی ہمارا دوہرا معیار کیوں ہے؟ بس بہت ہوگیا ہمیں اپنے اس دوہرے معیار کو بدلنا ہوگا ورنہ یاد رکھیں جس دین نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ “وہ ہم میں سے نہیں جس کا پڑوسی رات کو بھوکا سو گیا” تو اس دین میں اگر کسی مسجد کا امام اور اس کے بچے بھوکے سو گئے، کسی مدرس کے بیمار بچے محض پیسوں کی وجہ سے علاج سے محروم رہ گئے، کسی عالم کا میٹر بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے کٹ گیا تو ہمارے ساتھ روز محشر کیا معاملہ ہوگا؟ یاد رکھیں مسجد خوبصورت ہو، مزین ہو، ہر سہولت اس میں ہو، مگر امام و خطیب نہ ہو تو وہ مسجد اصلاح کا مرکز نہیں بن سکتی وہ تربیت گاہ نہیں کہلا سکتی لوگ اس سے دین نہیں سیکھ سکتے، امام کے بغیر عالیشان مسجد میں بھی پڑھی ہوئی نماز ایک ہی شمار کی جائے گی مگر مسجد کچی ہو یا کجھور کے پتوں سے بنی ہو مگر امام وخطیب موجود ہو تو امام کے ساتھ پڑھی ہوئی ایک نماز، 27 نمازوں کے برابر اجر دلواتی ہے، وہ تربیت گاہ بھی بن جاتی ہے۔

دین کا مرکز بھی کہلاتی ہے اور اسلامی تعلیمات کا سر چشمہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ مسجد میں ٹائل لگوانا، اے سی لگوانا ایسا صدقہ جاریہ ہے جو مسجد کے امام و خطیب پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔ خدارا اس فرسودہ سوچ کو بدلیے، اپنی مساجد کی بلڈنگ کے ساتھ آئمہ اور مدرسین کا بھی خیال رکھیں، انھیں صرف انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، انتظامیہ سے ہٹ کر خاموشی سے ان کی مدد کیجیے، ان کے گھر راشن پہنچانے کا بندوبست کیجیے، ان کے بچوں کا خیال کیجیے۔ مدارس و مساجد کے ساتھ تعاون ضرور کیجیے لیکن علماء کے ساتھ اس سے ہٹ کر تعاون کیجیے، لمحہ موجود میں آپ کے تعاون کے سب سے زیادہ حقدار مساجد و مدارس سے جڑے یہی علماء ہیں، جو ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔





Source link

Exit mobile version