حالانکہ جرمنی کی اس پہل سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم پوتن کو الگ تھلگ کرنے کی سبھی کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔ زیلنسکی نے اس سلسلے میں خبردار کیا کہ اگر روس کو رعایتیں دی گئیں تو پوتن تھوڑے وقت کے لیے پُر سکون ہو سکتے ہیں لیکن یہ انہیں مستقبل میں اور بھی جارح بنا دے گا۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی اور روس کے درمیان یہ بات چیت ایک بڑے بدلاؤ کی طرف اشارہ ہے۔ جرمنی جو اب تک ناٹو کی پالیسی پر عمل کرتا رہا ہے، ٹرمپ کے بدلتے امریکہ کی پالیسی کو بھانپتے ہوئے خود کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہل یورپ میں طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔