Site icon

پاکستان کو درپیش چیلنجز – ایکسپریس اردو


پاکستان کثیرالجہتی مسائل کا شکار ہے۔ معیشت کے معاملات بھی خاصے مشکل اور پیچیدہ ہیں اور دہشت گرد تنظمیں بھی مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے سٹسم، بزنس اور کاروبار میں رابطے بنا چکی ہیں اور انھیں اندر سے سہولت کاری ملنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد معاملات زیادہ گمبھیر ہوئے ہیں۔ پاک ایران سرحد کے آر اور پار علاقے بھی حساس ہو چکے ہیں۔

یوں پاکستان کے شمال مغرب کا وسیع علاقہ دہشت گرد تنظیموں اور جرائم مافیا گینگز کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے اور ان کی نقل و حرکت بھی آسان ہوگئی ہے۔ یقینا پاکستان کے حساس اداروں کے پاس خاصی معلومات موجود ہیں اسی لیے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹیڈ آپریشنز شروع کر رکھے ہیں اور یہ آپریشنز مسلسل جاری ہیں۔

گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں وادی تیراہ اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ہیں۔ میڈیا کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ 20اگست سے سیکیورٹی فورسز نے کے پی میں خفیہ اطلاعات پر فتنہ الخوارج کے خلاف آپریشنز کا آغاز کیا ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق وادی تیراہ میں28  اور 29 اگست کو فورسز نے خوارج کے ٹھکانوں پر موثر حملے کیے، جس کے نتیجے میں 12 خوارج واصل جہنم ہو گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں فتنہ الخوارج اور اس کے حامیوں کو بڑا دھچکا پہنچا ہے اور اب تک 37 دہشت گرد واصل جہنم ہو چکے۔

آئی بی اوز اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ علاقے میں امن بحال نہیں ہو جاتا اور خوارج کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 29/30 اگست کی رات بلوچستان کے اضلاع کیچ، پنجگور اور ژوب میں تین الگ الگ آپریشنز کیے گئے۔ آپریشنز کے دوران فورسز نے 5 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ کلیئرنس آپریشنز اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ ان گھناؤنے جرائم کے تمام ذمے داروں، سہولت کاروں اور معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جائے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فورسز قوم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں امن، استحکام اور ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کو مؤخرکرکے بلوچستان کی صورتحال پر بحث کرائی گئی۔ سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جو لوگ ریاست پاکستان کو مانتے ہیں، ہم ان کو سر پر بٹھائیں گے، ان کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریںگے لیکن جو لوگ یا گروہ ریاست پاکستان کو نہیں مانتے، بندوق اٹھاتے ہیں، وہ دہشت گرد ہیں، ریاست و حکومت ان کا بندوبست کرے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ جو واقعہ 26 اگست کی رات ہوا، وہ پوری پلاننگ کے ساتھ ہوا، ہمیں معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے؟

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کے بیان پر بات کرتے ہوئے سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ یہ ایس ایچ او کی بات کر رہے ہیں، پہلے کچے کے ڈاکوؤں سے بکتربند گاڑیاں تو چھڑوا لیں، بلوچستان جب سے بنا ہے، یہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ بلوچستان ستر سالوں سے محروم ہے، خدارا ان پر رحم کریں۔

سینیٹر بلال احمد خان نے کہا کہ بلوچستان میں چند لوگوں کی حرکت کی وجہ سے پورے صوبے پر اثرات پڑ رہے ہیں، بلوچستان کے لوگوں کو اپنا سمجھیں۔ سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالا جائے، وہ دہشت گردی کے خاتمہ کا ماہر ہے۔ سینیٹ میں جو گفتگو ہوئی، اس کے معیار اور سنجیدگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سینیٹرز خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، سنگین ایشو کے حوالے سے ان کی سوچ، زیرکی اور تدبر کا معیار ایسا نہیں لگ رہا، جیسا امریکی سینیٹرز کا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے سینیٹ میں جو کچھ کہا، اس کا جواب طنز یا طعنے نہیں ہے۔ سینیٹ پاکستان کا منتخب ادارہ ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ مسودۂ قوانین پر بحث بھی ہوتی ہے۔ اس معزز ایوان کے ارکان کا یہ آئینی فرض ہے کہ ان کے لیے پاکستان کی سالمیت اولین ترجیح ہو۔ بلوچستان میں جاری دہشت گردی ہو، ٹی ٹی پی یا بلوچستان کی علیحدگی پسند متشدد تنظیموں کا ایشو ہو، اس پر گروہی سیاست یا غیرضروری طعنہ زنی سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر معزز سینیٹرز کے پاس معاملات کا ٹھوس اور قابل عمل حل موجود ہے تو انھیں اس کی جزئیات اور کلیات ایوان کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی، لاقانونیت، اسمگلنگ، انتہاپسندی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے پاکستان اور اس کے باشندوں کے تحفظ اور خوش حالی کے لیے بات کریں۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ وزار ت خزانہ نے ماہانہ معاشی آؤٹ لک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال کا آغاز مثبت معاشی اشاریوں کے ساتھ ہوا، پہلے ماہ درآمدات میں کمی، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے سے کرنٹ اکاؤنٹ اورتجارتی خسارے نمایاں کمی ہوئی۔

وزارت خزانہ کے مطابق جولائی میں ترسیلات زر کا حجم47.6 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال جولائی میں 2ارب ڈالر تھا، برآمدات سالانہ بنیادوں پر12.9فیصد اضافے کے ساتھ 2.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی، جولائی میں مجموعی درآمدات کا حجم 16.3فیصد اضافے کے ساتھ 4.8 ارب ڈالر رہا، بیرونی سرمایہ کاری میں63.8 فیصد اضافہ ہوا،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں سالانہ بنیاد پر 78.1 فیصد کمی ہوئی، ایف بی آر ٹیکس وصولیاں بھی مقررہ ہدف سے زائد رہیں جب کہ زرعی قرضوں کے اجرا میں 24.8 فیصد اضافہ ہوا ۔

رپورٹ کے مطابق جولائی میں شرح مہنگائی11.1فیصد رہی، اگست میں 9.5 سے10.5 فیصد کے درمیان،ستمبر مزید کم ہو کر9 سے 10فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ اگست میں برآمدات 2.5 سے 3.2 ارب ڈالر کے درمیان، درآمدات کا حجم4.5 سے 5 ارب ڈالر رہنے، ترسیلات زر 2.6 سے 3.3ارب ڈالر کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔

ادھر وفاقی حکومت نے پاکستان کے ذمے ملکی اور غیرملکی قرضوں کی تفصیلات اور ان قرضوں کی واپسی کا شیڈول قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ رواں سال18ہزار700ارب جب کہ 2040ء تک 66 ہز ار ارب روپے کے قرضے کی واپسی کا پلان تیارکیا گیا ہے۔ وزرات خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ جون تک ملکی قرض 71 ہزار ارب تھا جس میں 47 ہزار ارب سے زائد ملکی اور 24ارب سے زائد غیر ملکی قرضہ ہے۔ اس طرح، مجموعی قرضے کا 66 فیصد ملکی اور 34 فیصد غیر ملکی قرضوں پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب ملکی قرضہ حکومتی سیکیورٹی کے اجراء جب کہ بیرونی قرضہ ترقیاتی شراکت داروں اور کمرشل اداروں سے حاصل کیا جا رہا ہے۔آیندہ 16سال میں قرض ادائیگی کا شیڈول پیش کیا گیا ہے، مجموعی طور پر ایک ہزار ارب، 2040 میں800ارب روپے کے ملکی اور غیر ملکی قرض کی ادائیگیاں کی جائیںگی ۔

ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں چونکہ بی جے پی کی حکومت ہے اور وزیراعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بی جے پی چونکہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت ہے، اس لیے پاکستان کے حوالے سے اس جماعت کی حکومت کی پالیسی سخت گیری پر مبنی چلی آ رہی ہے۔گزشتہ روز بھی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ایک بھارتی سفارت کار راجیو سیکری کی کتاب کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، میرے خیال میں آرٹیکل 370 سے یہ معاملہ ختم کردیا گیا۔ اس اقدام کے بعد اب ہم پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات پر غور کرسکتے ہیں اور ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر دیکھا جائے۔ اس قسم کے ریمارکس آداب سفارت کاری کے برعکس ہیں۔ جے شنکر اس سے قبل بھی کئی متنازعہ باتیں کر چکے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی جمہوری سیاسی قیادت، منتخب نمایندوں اور اہل علم کو اپنے ملک کے حوالے سے کوئی راہ عمل متعین کرنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔





Source link

Exit mobile version