Site icon

’’شمس الرحمن فاروقی، تنقید نگاری کی دنیا کا ایک بڑا نام


برصغیر کے ادبی حلقوں میں شمس الرحمن فاروقی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نامور نقاد، محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، مترجم، ماہر لغت و عروض اور معروف ادبی جریدہ’’ شب خون‘‘ کے مدیر تھے، وہ بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں30 ستمبر1935 ء کو پیدا ہوئے، وہ سات بھائیوں میں سب سے بڑے اور تیرہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔

انہیں پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھ پوری کے اُستاد تھے۔ نانا محمد نظیر نے بھی ایک چھوٹا سا اسکول قائم کر رکھا تھا جو اب کالج میں تبدیل ہوچکا ہے۔ انہوں نے شاعری کی ابتداء اسکول کے زمانہ سے ہی شروع کی۔

سات برس کی عمر میں ایک مصرع لکھا ’’ معلوم کیا کسی کو میرا حال زار ہے‘‘ مگر مدتوں سے دوسرا مصرع نہ لگ سکا۔ پہلا ہی شعر مکمل نہ ہوا تو انہوں نے شاعری کا پیچھا چھوڑکر ایک فلمی رسالے ’’گلستان‘‘ کی ترتیب و اشاعت میں حصہ لینے شروع کردیا۔ میٹرک کے بعد افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغازکیا مگر انہیں نہ اپنے پہلے افسانے کا نام یاد رہا نہ اُس پرچے کا جس میں وہ پہلی بار چھپا تھا۔

1949 یا 50 میں ایک ناول ’’دلدل سے باہر‘‘ کے عنوان سے تحریرکیا جو’’ معیار‘‘ میرٹھ میں چار قسطوں میں شائع ہُوا اس طرح انہوں نے نثرکو ہی اپنا ذریعہ اظہار بنا لیا۔اعظم گورکھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد الہٰ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اپنے ایک مضمون میں منصور مہدی رقم طراز ہے کہ ’’ الہٰ آباد میں وہ ایک عزیزکے یہاں رہتے تھے جن کے گھر سے کئی میل دور یونیورسٹی تھی وہ اکثر پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے اور دورانِ سفر بھی ان کے ہاتھ میں کتاب کھلی ہوتی اور وہ ورق گردانی کرتے ہوئے چلتے رہتے۔‘‘

الہٰ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے انگریزی میں ایم اے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ’’ اُس وقت ان کی تصویر انگریزی روزنامے ’’ امروت ‘‘بازار پتریکا میں شائع ہوئی تو تمام خاندان والوں نے ان پر فخرکیا۔ اُسی زمانے میں ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو جمیلہ ہاشمی سے ہوئی جو ان کی ذہانت سے متاثر کیا ہوئی بعد میں یہی جمیلہ ہاشمی ان کی بیوی ٹھہری۔ایم اے کے بعد انہوں نے شعبہ تدریس اختیارکیا مگر ساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔

1957 ء میں انہوں نے یہ امتحان پاس کیا اور انہیں پوسٹل سروس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہاں ان کے پوسٹنگ انڈیا کے دیگر شہروں میں ہوتی رہی جبکہ انہوں نے بہت سے ممالک کا سفر بھی کیا۔ اسی دوران شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی مضامین اور تراجم بھی شائع ہونے لگے، یوں وہ ادبی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا تو ترقی پسند ادیبوں نے شمس الرحمن فاروقی کو جدیدیت اور ادب کا علم بردار سمجھ کر انہیں اپنا حریف سمجھنا شروع کر دیا مگر وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اور آخر کامیاب ٹھہرے۔

شمس الرحمن فاروقی تنقید نگاری کی دنیا کا ایک بڑا نام تھا، انہوں نے زیادہ عرصہ تین چار صدیوں کی تہذیبی و ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے میں صرف کرنے کے بعد ان کا ذہن اُردو کے تہذیبی متن، ادبی جہان گم گشتہ، مسلم معاشرت، زبان و بیان اور ثقافتی، سماجی زندگی سے روشن ہو چکا تھا جس کا ایک باب ’’شعور شعر انگیز‘‘ کی داستانوں میں کھلتا ہے۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل میرؔ تقی میرکی تفہیم جس انداز میں لکھی گئی ہے اس کی کوئی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب کی جلد دوم کے صفحہ نمبر14 پر شمس قیس رازی کی آرا اور ’’ تمہید جلد اول‘‘ کے عنوان سے شمس الرحمن فاروقی کا پیش لفظ موجود ہے، جس میں اس کتاب کے مقصود حسب ذیل ہیں۔

(1 )میرکی غزلیات کا ایسا معیاری انتخاب جو دنیا کی بہترین شاعری کے سامنے بے جھجک رکھا جاسکے، اور جو میرکا نمائندہ انتخاب بھی ہو۔(2 )اُردو کے کلاسیکی غزل گو یوں، بالخصوص میر، کے حوالے سے کلاسیکی غزل کی شعریات کا دوبارہ حصول۔ (3)مشرقی اور مغربی شعریات کی روشنی میں میرکے اشعارکا تجزیہ، تشریح، تعبیر اور محاکمہ۔(4 )کلاسیکی اُردو غزل، فارسی غزل (علی الخصوص سبک ہندی کی غزل) کے تناظر میں میر کے مقام کا تعین۔(5 )میر کی زبان کے بارے میں نکات کا حسب ضرورت بیان۔میر کو سمجھنے کے لیے ان کی اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔

انہیں ان کی اس کتاب’’ شعر شور انگیز‘‘ پر 1996 ء میں ’’ سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا جسے برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ تسلیم کیا جاتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی بہ یک وقت اُردو، انگریزی اور فارسی زبانوں اور کلاسیکی و جدید ادبیات پر غیر معمولی عبور رکھتے تھے۔ وہ بے مثال یاد داشت اور غیر معمولی تجرباتی صلاحیتوں کے مالک تھے۔1966 ء میں انہوں نے ادبی رسالے ’’شب خون‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ’’ شب خون‘‘ کے پہلے شمارے پر مدیرکی حیثیت سے ڈاکٹر سید اعجاز حسین، نائب مدیر جعفر رضا اور مرتب و منتظم کی حیثیت سے ان کی اہلیہ جمیلہ فاروقی کے نام شائع ہوئے۔

یہ رسالہ تقریبا چالیس برس تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ 2005 ء میں اس کا آخری شمارہ منظرِ عام پر آیا جو دو جلدوں پر محیط تھا، جس میں ’’شب خون‘‘ کی گزشتہ شماروں کی بہترین تخلیقات کو شائع کیا گیا۔ ترقی اُردو بیورو سے بھی کچھ عرصہ تک وابستہ رہے۔ اس دوران انہوں نے ادارے میں نئی روح پھونک دی اور دورانِ وابستگی میں اس ادارے سے نہ صرف اُردو کے کلاسیکی ادب اور لغات کو ازسر نو شائع کیا گیا بلکہ کئی نئی کتابیں بھی شائع کیں۔ اس ادارے سے ایک جریدہ بھی ’’ اُردو دنیا‘‘ کے نام سے شائع ہونا شروع ہُوا، جس نے اُردو کی کتابی دنیا کو ایک نئی پہچان دی۔

ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں اثبات و نفی، اُردو غزل کے اہم موڑ،اُردو کا ابتدائی زمانہ، ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو، افسانے کی حمایت میں، اندازِ گفتگوکیا ہے؟،تعبیر کی شرح،تفہیم غالب، شعر شور انگیز (چارجلدیں)، شعر غیر شعر اور نثر،خورشید کا سامانِ سفر، صورت و معنی سخن، غالب پر چار تحریریں،گنج سوختہ،لغات روز مرہ، ہمارے لیے منٹو صاحب، لفظ و معنی،نغمات حریت، عروض آہنگ اور بیان‘‘ دیگر شامل ہیں۔افسانے میں ’’سوار اور نئے افسانے‘‘ اور ناول میں’’ کئی چاند تھے سرِآسمان‘‘ جبکہ شاعری میں’’ آسمان محراب‘‘ اور اس کے علاوہ دیگر کتب شامل ہیں۔ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی پر لکھی گئیں کتابوں میں:

( 1 )جدید اُردو تنقید کا تجزیاتی مطالعہ (شمس الرحمن فاروقی کے خصوصی حوالے سے)۔ ڈاکٹر نشاط فاطمہ‘(2 )شمس الرحمن فاروقی کی تنقید نگاری۔محمد منصور عالم‘(3 )شمس الرحمن فاروقی حیات نامہ۔نجم فضلی‘(4 )شمس الرحمن فاروقی ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ کی روشنی میں۔محمد سالم‘(5 )شمس الرحمن فاروقی ۔محو گفتگو۔ راحیل صدیقی‘(6 )کئی چاند تھے سرِ آسمان۔ ایک تجزیاتی مطالعہ۔ رشید اشرف۔

شمس الرحمن فاروقی نے اپنے آخری ایام بہت تکلیف میں گزارے۔ دہلی میں وہ اپنی بیٹی کے گھر زیرِ علاج بہ صد تھے کہ انہیں ان کے گھر الہٰ آباد لے جایا جائے انہیں اپنے گھرکے پھولوں، پودوں، پرندوں اور جانوروں سے محبت تھی۔ یہی محبت انہیں کھینچ لے گئی جیسے ہی گھر پہنچے کہ ملک الموت کا پیغام آ گیا اور اُردو ادب کا یہ آفتاب 25 دسمبر2020 ء کو 85 برس کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ آج اس کے جانے سے ادبی فضا سوگوار ہیں۔





Source link

Exit mobile version