Site icon

اسماعیل ہنیہ کی شہادت، امن کوششیں سبوتاژ


حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں پُراسرار طور پر ایک میزائل حملے میں شہید کردیا گیا جس کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر براہ راست حملے کا حکم دے دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنے دشمنوں کو عبرت ناک جواب دیا ہے، تاہم اس دوران انھوں نے تہران میں قتل ہونے والے حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ درحقیقت اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے امریکا و اسرائیل کا یہ خواب ہرگز پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ان کی جگہ کسی مصلحت پسند اور عافیت طلب شخصیت کو میدان میں لا کر اپنے مفادات حاصل کرلیں گے۔

حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غزہ جنگ بندی مذاکرات کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے۔ قطر، مصر اور امریکا اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں اہم ثالث رہے ہیں، تاہم حماس سربراہ کی شہادت کے بعد قطر اور مصر کی جانب سے غزہ جنگ بندی مذاکرات کے مستقبل پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ سیاسی قتل اور غزہ میں شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانا جب کہ فریقین کے مابین بات چیت بھی جاری ہو، ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب ایک فریق دوسرے فریق کے مذاکرات کار کو قتل کر دے تو ثالثی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ بلاشبہ نیتن یاہو سفاک ہے اور عالمی ادارے اور طاقتور ممالک اس سفاک انسان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے دعوے کرنے اور اسے یقینی بنانے والوں کے لیے بھی اس سے بدترین وقت نہیں ہوگا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، شہید ہنیہ مظلومین فلسطین کی ایک توانا آواز تھے، انھوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا، ان واقعات سے مزاحمت کا محاذ کمزور نہیں ہوگا بلکہ یہ مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔

دوسری جانب اسرائیلی دہشت گردی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان اسرائیل کوکبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان اسلامی نظریاتی ریاست ہے جب کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز قبضہ کرکے معصوم لوگوں کا قتل عام کررہا ہے، اسرائیل جتنی بھی کوشش کر لے وہ کبھی بھی فلسطینیوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ پر حملے اور اُن کی ہلاکت کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ کارروائی ہے اور اس کی وجہ سے خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اُنھوں نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف متحد، صابر اور ثابت قدم رہیں جب کہ دوسری جانب ایرانی دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے حماس کے رہنما خلیل حیہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی پوری زندگی نامساعد حالات اور مختلف ممالک میں گزری، ان کی شہادت کا جواب دیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اسرائیل ماضی میں کئی بار اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کی کوششیں کرچکا ہے۔ پہلی بار 2006 میں جب اسماعیل ہنیہ وزیر اعظم تھے تب اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے ان کے دفتر کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں ان کے تین محافظ زخمی ہوئے لیکن آپ کچھ لمحے پہلے اپنے دفتر سے نکلنے کے باعث محفوظ رہے تھے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد مبینہ طور پر قطر اور ترکیہ میں بھی کئی بار قاتلانہ حملے کی کوشش کر چکی تھی۔ اسرائیل نے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں اسماعیل ہنیہ کے گھر کو بھی کئی بار نشانہ بنایا ہے۔

غزہ کے حالیہ قتل عام کے دوران صیہونیوں نے ان کے خاندان کے 60 افراد کو شہید کیا ہے، جن میں ان کے 3 بیٹے، 5 پوتے اور بہن شامل ہیں، لیکن بیان بازی کے باوجود بہت سے سفارت کاروں نے انھیں غزہ کے اندرگروپ کے زیادہ سخت گیر ارکان کے مقابلے میں اعتدال پسند کے طور پر دیکھا۔ اسماعیل ہنیہ عرب حکومتوں کے ساتھ حماس کے لیے سیاسی جنگ کی قیادت کر رہے تھے اور حماس کے سیاسی اور سفارتی محاذ پر لڑ رہے تھے۔

2017 میں حماس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے بعد ہنیہ ترکی اور قطرکے دارالحکومت دوحہ منتقل ہوتے رہے جس کی وجہ سے وہ غزہ کی ناکہ بندی کے بعد سفری پابندیوں سے بھی محفوظ رہے اور جنگ کے دوران مذاکرات کے طور پر کام کرنے یا حماس کے اتحادی ایران کے ساتھ بات چیت کے قابل بن گئے تھے۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو کیے جانے والے حملے کے فوری بعد ہنیہ نے قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ آپ (عرب ریاستوں) نے (اسرائیل) کے ساتھ حالات معمول پر لانے کے تمام معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس سے یہ تنازع ختم نہیں ہوگا۔ حماس کا کہنا ہے کہ 10اپریل کو اسرائیل کے فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حزم، عامر اور محمد شہید ہو گئے تھے۔

اس حملے میں ہنیہ نے اپنی تین پوتیوں اور ایک پوتے کو بھی کھو دیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی شہادت سے جنگ بندی کے مذاکرات متاثر ہوں گے تو ہانیہ نے اسرائیل کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی کہ ان کے بیٹے اس گروپ کے جنگجو ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کے مفادات ہر چیز سے بالاتر ہیں۔ اسماعیل ہنیہ ایک نوجوان کے طور پر غزہ شہر میں اسلامی یونیورسٹی میں ایک ایکٹوسٹ تھے۔ انھوں نے حماس میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب اسے 1987 میں پہلی فلسطینی انتفاضہ (بغاوت) تحریک شروع ہوئی۔ اسماعیل ہنیہ کو اس وقت گرفتار کرنے کے بعد مختصر وقت کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو اپنا مرشد بنالیا، وہ ہانیہ کے خاندان کی طرح اشکلون کے قریب الجورا گاؤں سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین تھے۔

2003 تک اسماعیل ہانیہ شیخ احمد یاسین کے ایک قابل اعتماد معاون تھے، انھوں نے غزہ میں اپنے مرشد کے مکمل طور پر تباہ گھر میں مکمل طور پر مفلوج شیخ احمد یاسین کے کان پر فون رکھ کر تصویر کھینچی تھی تاکہ وہ بات چیت میں حصہ لے سکیں۔ شیخ احمد یاسین کو اسرائیل نے 2004 میں شہید کر دیا تھا۔ ہنیہ حماس کے سیاست میں داخل ہونے کے اولین حامی تھے۔ 1997 میں وہ حماس کے روحانی قائد شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکریٹری اور ان کے دفتر کے سربراہ بنے۔ 1988 میں حماس کے پہلے انتفادہ میں مظاہروں کی قیادت کرنے پر اسماعیل ہانیہ کو گرفتار کر لیا گیا اور 6 ماہ قید کے بعد رہا کیا گیا۔ 1989 میں اسرائیل نے آپ کو دوبارہ گرفتار کیا۔

تین سال قید کے بعد 1992 میں آپ کو جبراً لبنان جلاوطن کر دیا گیا۔ جہاں سے اوسلو معاہدے کے بعد آپ کی غزہ واپسی ہوئی۔ 2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ حماس الفتح کے اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہانیہ ہی اس کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ 2017 میں انھیں ڈاکٹر خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد آپ فلسطین کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ بن گئے۔ 2023 سے وہ قطر میں قیام پذیر تھے۔ 1994 میں انھوں نے کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت بنانے سے حماس کو ابھرتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

ابتدائی طور پر حماس کی قیادت نے اسے مسترد کر دیا تھا لیکن بعد میں اسے منظور کر لیا گیا تھا اور 2006 میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے ایک سال بعد گروپ نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حماس نے 2007 میں غزہ پرکنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ 2012 میں جب رائٹرز کے نامہ نگاروں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا حماس نے مسلح جدوجہد ترک کر دی ہے تو ہنیہ نے جواب دیا تھا کہ ’بالکل نہیں‘ اور کہا کہ مزاحمت ’عوامی مزاحمت، سیاسی، سفارتی اور فوجی مزاحمت‘ کی تمام شکلوں میں جاری رہے گی۔

دنیا کی مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اس کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہی ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کررہی ہیں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو ان سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔

گزشتہ چند ماہ میں چالیس ہزار افراد کا قتل اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے والی ظالم اسرائیل فوج کی اس کھلی دہشت گردی سے کیا دنیا امن خطرے میں نہیں ہے، کیا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ انسانیت کے نام پر دنیا بھر میں احتجاج نہیں کررہے، کیا عالمی طاقتوں کو بہتا ہوا خون اور اس ناحق خون کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہزاروں لاکھوں افراد نظر نہیں آ رہے۔ یہ ظلم دہائیوں سے فلسطین میں جاری ہے اور یہی ظلم دنیا کو ایک عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔





Source link

Exit mobile version