امی جی تحریر محمد اظہر حفیظ

امی جی
تحریر محمد اظہر حفیظ
امی جان جب خوش ھوتیں تو خوشی سے رو دیتیں یہ ان کی ایک خاص عادت تھی ھم بہن بھائیوں کی کوئی تعریف کرتا تو وہ رونے لگ جاتیں اورتعریف کرنے والا پریشان ھو جاتا, گاؤں میں رھتے تھے مجھے ٹائیفائیڈ ھوگیا کئی ماہ اترتا ھی نہیں تھا امی بہت پریشان تھیں اور ایک دن کمزوری سی لقوہ ھوگیا اور پھر کئی روز امی دن رات میرا منہ پکڑ کر بیٹھی رھتی میں ڈرتا تھا امی میرا منہ پکڑیں ٹیڑھا ھو جائے گا اورمجھے بہت ڈر لگتا تھا مجھے دیواروں کے اوپر کچھ نہ کچھ بیٹھانظر آتا,امی او کی اے دیوار تے کجھ ھے امی کوئی جن اے امی کوئی ھے امی فورا تائی جی کو بلا لاتیں آپاں جی اظہر دی طبعیت زیادہ خراب اے ,تائی جی بہت نفیس اور شفیق خاتون تھیں اور ھم سے بے پناہ محبت کرتیں تھیں میری حالت دیکھ کر ان کی اپنی حالت خراب ھو جاتی اب امی جی دو لوگوں کو سنبھالتیں کبھی مجھے اور کبھی تائی جی کو جب تک گاؤں تھے ھمیشہ اباجی کی مار سے بچنے کی ڈھال تائی جی ھی تھیں میں ڈورتا جاتا اور پکارتا جاتا تائی مینو بچا لے اور تائی جی مجھے اپنے پیچھے چپھا لیتں ابا جی آپاں جی تسی اک پاسے ھو جاؤ تائی اباجی سے باؤ اننو کجھ نہ کہہ اور بس ابا جی کے لیے یہ حکم کافی ھوتا تھا لوگ تائی جی کو ھماری دادی سمجھتے تھے پھر تھوڑی دیر میں امی لینے آجاتیں اور مجھے سلاتے ھوئے سبق آموز کہانیاں سناتیں کبھی حضرت یوسف کی اور کبھی حضرت عمر کبھی قیامت کیسی ھو گی اور کبھی نبی صاحب کی زندگی امی کو تقریباً سارا دین اسلام اور اس سے وابسطہ واقعات زبانی یاد تھے سمجھاتی تھیں باھر لڑائی نہ کیا کرو ایک دن طارق بھائی بہت پریشان تھےمیں نے اور ناصر نے پوچھا باؤ جی کی گل اے کہنے لگا یار میرا وڈا پرا کوئی نی منڈے مینوں ماردے نے ھم نے کہا آپ فکر نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ھوگا ایک دن ساتھ والے گاؤں سے بھائی کا دوست آیا وہ زور سے گلے ملا ھم دونوں سمجھے بھائی کی لڑائی ھوگئی بس پھر بھائی چھڑاتا ھی رہ گیا اور اس کا ھم نے مار مار کر حشر کر دیا,امی کو پتہ چلا تو بہت ھنسی کہنے لگی محمد طارق ان دونوں کو تو لڑائی کا بہانا چاھیے توں اننا نو کی کہہ بیٹھا,امی کو میں نے کبھی نماز قضاکرتے نہیں دیکھا دسمبر 2010 میں وہ کچھ دن بہوش رھیں ھوش میں آتے ھی مینو جا لین دینا سی میری نمازیں قضا ھو گیئں ھمیشہ دو سالن بنا کر فریج میں رکھتیں کہ کوئی آ جاتا ھے, ابا جی کے دفتر سے لوگ آتے تو فورا کھانا رکھ دیتیں امی روٹیاں تندور سے لے آؤں نہ اظہر گھر بنا دیتی ھوں ھمیں خود تندور کی پسند نہیں تو مہمانوں کو کیسے دیں صدقہ خیرات بہت کرتی تھیں مسلم ایڈ کی ڈاکمنٹری بنا کر آیا ان کو دکھائی تو رونے لگیں سیلاب پر فلم تھی امی کی ھویا جب ھم پاکستان ہجرت کرکے آئے تو بہت سیلاب آیاھوا تھا ھر طرف سانپ اور ڈر تھا مجھے پوچھتی ھیں کیسے لوگ نے مسلم ایڈ والے امی جی سارا کم دیکھیا فراڈ تے کجھ نظر آیا اچھے نمازی ایماندار لوگ نے امی نے اپنے کانوں سے بالیاں اتاری یہ انکو دے آؤ امی تسی حکم کرو میں دے دیتا ھوں کہنے لگیں بیٹا یہ میرے جہیز کی ھیں انکا ثواب میاں جی کو بھی ھوگا میاں جی میرے نانا جی کو کہتے تھے اور میں بالیان بیچ کر پیسے مسلم ایڈ خوبیب واحدی بھائی کو دے آیا,اکثر اخبار غائب ھوجاتا ھم سمجھتے آیا نہیں ابا جی اس دفعہ اخبار والا آئےتے بل نہ دینا مینو ملانا اچھا جی امی بل دے دیتیں ایک دن کہنے لگیں فیش فوٹوگرافی چھڈ دے جدن تیری ماڈلاں دا سکینڈل آندا اے اخبار لکونا پیندا اے ورنہ تینوں پتہ اے اپنے ابا جی دا اس دن ماں کی عظمت کو سلام سمجھ آیا اولاد پر پردہ کیسے ڈالتی ھیں امی ابو 2003 حج کرکے آئے تو کہنے لگیں باؤ اوتھے جان دا فائدہ تاں اے جے بچے نال ھون سنبھالن والے تے بندہ عبادت کر ے فکر والی کوئی گل نہ ھووے دعا کی یااللہ ایسا کردے اور 2006 میں ھم سب میری فیملی اور امی ابو ھم عمرہ پر گئے بہت مزہ آیا اور ماں باپ کے ساتھ اور انکی خدمت کا مزہ ھی اور تھا امی ھر وقت دعا کرتی تھیں یااللہ کسی دا محتاج نہ کریں چلدیاں پھردیاں لے جائیں مینوں میاں صاحب(اباجی) دے اتھاں وچ چکیں,12جون 2011 میں اور بچے لوک ورثہ میلہ دیکھنے ابھی پہنچے ھی تھے بچے بابا واپس چلیں بہت گرمی ھے ھم گیٹ سے واپس آگئے مغرب کا وقت تھا بیگم اظہر امی کو دیکھیں میں اوپر گیا تو جائے نماز پر بیٹھی تھیں شوگر چیک کی تیز تھی اور بلڈ پریشر کم تھا انسولین لگائی ماں جی ھسپتال چلتے ھیں آئیں آپکو اٹھا کر نیچے لے چلتا ھوں نئی میں آپ چل کے جانا اے اچھا میں انھیں پکڑ نیچے لے آیا امی آئیں ھسپتال چلتے ھیں نہیں اےسی چلا ھن وقت آگیا سب کلمہ پڑھو اور کلمہ پڑھتے امی اللہ پاس چلی گئیں اور انکی دعا قبول ھوگئی چلدے پیریں چلی گئیں, بھائی اپنے بچوں کو لینے اڈے پر گیا ھوا تھا ان کو فون کیا وہ فوراً آگئے اباجی کو ھمسائے لیکر آئے میں اس دن بہت بہادر بن گیا رویا نہیں بھائی کو فون کیا بھائی امی فوت ھو گئی ھیں آجو بھائی کے آنے سی پہلے 1122 والے امی کی فوتگی کنفرم کرچکے تھے بھائی ڈاکٹر کو لے آیا ڈاکٹر نے بھی تصدیق کر دی بھائی میرے گلے لگا اور پوچھا یار امی میرا پوچھیاسی اور میں بھائی بس کلمہ پڑھیا سی, آگلے دن 13 جون ھم امی کو انکے ازلی گھر چھوڑ آئے اور شائد ابا جی کا غصہ بھی, ھم نے ابا جی کو دوبارہ کبھی غصہ میں نہیں دیکھا شائد وہ امی کے ساتھ ھونے پر ھمت رکھتے تھے, اس کے بعد ھم نے ایک لازوال محبت کی داستاں دیکھی ابا جی جب تک چل پھر سکتے تھے تقریبا تین سال ھر موسم ھرروز وہ دعا کے لیئے بلا ناغہ قبرستان جاتے تھے میری بیوی نے ایک دن مجھ سے پوچھا کیا آپ بھی ایسے کیا کریں گے میرا جواب تھا ممکن نہیں اتنی محبت

اپنا تبصرہ بھیجیں