ٹرمپ: ترکی کے سکیورٹی خدشات سے آگاہ ہیں اور مدد کرنا چاہتے ہیں

وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سے بات کرتے ہوئے انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ شام میں ترکی کے سکیورٹی خدشات سے آگاہ ہیں اور اس حوالے سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بیان صدر ٹرمپ کی جانب سے اختتامِ ہفتہ پر کی جانے والی ان ٹویٹس میں دیے گئے پیغام سے بالکل مختلف ہے جن میں انھوں نے ترکی کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے ترکی کے حوالے سے اپنی تازہ ترین ٹویٹ میں کہا کہ ‘میری صدر اردوغان سے بات ہوئی ہے جہاں میں نے واضح کیا ہے کہ ہمارا شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ کے بارے موقف کیا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ہم نے امریکہ اور ترکی کے تجارتی تعلقات کے بارے میں بھی بات کی جس میں اضافے کا بہت امکان ہے۔ ‘

واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے صدر ٹرمپ نے شام میں امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے ترکی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ٹویٹس کی تھیں لیکن خبروں کے مطابق اب کشیدگی میں کمی آئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شام سے امریکی فوج کا انخلا شروع ہو گیا ہے اور اگر ترکی نے کردوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ ترکی کو اقتصادی طور پر تباہ کر دے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ بچے کچھے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو فضا سے نشانہ بنایا جائے گا اور بیس میل طویل ایک ‘سیف زون’ یا محفوظ علاقہ بنایا جائے گا۔

ان کی یہ ٹویٹ بظاہر ان پر کی جانے والی اس تنقید کے رد عمل میں کی گئی جس میں کہا جا رہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا سے خطے میں امریکی اتحادیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی تھی کہ کس طرح امریکہ ترکی کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے تاہم ان کے اپنے مشیر بھی اس پر بظاہر حیران دکھائی دیے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ترکی کی معیشت کو کس طرح تباہ کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا یہ تو آپ کو صدر سے پوچھنا پڑے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہم نے کئی جگہوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں وہ شاید اس ہی کی بات کررہے ہوں گے۔’

دریں اثنا ترکی کے وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکی کو اپنے امریکی ناقدوں کے لیے ایک جواب قرار دیا۔

کیا امریکہ ترکی کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے؟
ترک وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ یہ کئی بار کہہ چکے ہیں وہ کس دھمکی سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے والے نہیں ہیں۔’

انھوں نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی نوعیت کے اس طرح کے معاملات پر سوشل میڈیا یا ٹوئٹر پر بات نہیں کی جاتی۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں امریکی کی طرف سے ترکی پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ناکام ہو گئی تھیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ اگست میں ایک امریکی عیسی راہب کی گرفتاری پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعد امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس سے ترکی کی کرنسی لرا پر شدید منفی اثرا ہو تھا اور چند ماہ بعد اس راہب کو رہا کر دیا گیا تھا۔

اسی دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے ترجمان ابراہیم کلن نے کہا ہے کہ ترکی امید کرتا ہے کہ امریکہ سٹریٹجک پاٹنرشپ کی پاسداری کرے گا۔

اس ہفتے کے اختتام پر صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ پر دھمکی سے پہلے امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے ترک ہم منصب سے فون پر بات کی ہے اور وہ اس بارے میں خاصے پر امید ہیں کہ شام میں کرد جنگجوؤں کو بچانے کے لیے میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔

انھوں نے کہا جو جنگجو اتنے برس تک امریکی فوج کے ہمراہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں ان کو حق بنتا ہے کہ انھیں بچایا جائے۔

مائیک پوپیو نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی
صدر اردوگان نے کرد واے پی جی ملیشیا کی امریکی کی طرف سے حمایت پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انھیں (کرد جنگجوؤں) کچل کر رکھ دیں گے۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی ایک محفوظ علاقہ بنانے کا مخالف نہیں ہے لیکن وہ ان باغیوں کو نشانہ بنانے کی بات کر رہا ہے جو شام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

شام میں امریکے کی بری فوج سنہ دو ہزآر پندرہ میں بھیجی گئی تھی جب اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ وائے پی جی کے جنگجوؤں کو تربیت دینے کے لیے کچھ فوجی بھیجے گئے ہیں۔

اس کے بعد شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور اس علاقے میں امریکی فوج کے کئی اڈے، تربیتی مراکز اور ہوائی اڈے بنا لیے گئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ترکی کی معیشت کو کس طرح تباہ کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا یہ تو آپ کو صدر سے پوچھنا پڑے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہم نے کئی جگہوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں وہ شاید اس ہی کی بات کررہے ہوں گے۔’

دریں اثنا ترکی کے وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکی کو اپنے امریکی ناقدوں کے لیے ایک جواب قرار دیا۔

کیا امریکہ ترکی کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے؟
ترک وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ یہ کئی بار کہہ چکے ہیں وہ کس دھمکی سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے والے نہیں ہیں۔’

انھوں نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی نوعیت کے اس طرح کے معاملات پر سوشل میڈیا یا ٹوئٹر پر بات نہیں کی جاتی۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں امریکی کی طرف سے ترکی پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ناکام ہو گئی تھیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ اگست میں ایک امریکی عیسی راہب کی گرفتاری پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعد امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس سے ترکی کی کرنسی لرا پر شدید منفی اثرا ہو تھا اور چند ماہ بعد اس راہب کو رہا کر دیا گیا تھا۔

اسی دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے ترجمان ابراہیم کلن نے کہا ہے کہ ترکی امید کرتا ہے کہ امریکہ سٹریٹجک پاٹنرشپ کی پاسداری کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گرد نہ آپ کہ اتحادی ہو سکتے ہیں نہ شراکت دار۔

اس ہفتے کے اختتام پر صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ پر دھمکی سے پہلے امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے ترک ہم منصب سے فون پر بات کی ہے اور وہ اس بارے میں خاصے پر امید ہیں کہ شام میں کرد جنگجوؤں کو بچانے کے لیے میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔

انھوں نے کہا جو جنگجو اتنے برس تک امریکی فوج کے ہمراہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں ان کو حق بنتا ہے کہ انھیں بچایا جائے۔
صدر اردوگان نے کرد واے پی جی ملیشیا کی امریکی کی طرف سے حمایت پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انھیں (کرد جنگجوؤں) کچل کر رکھ دیں گے۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی ایک محفوظ علاقہ بنانے کا مخالف نہیں ہے لیکن وہ ان باغیوں کو نشانہ بنانے کی بات کر رہا ہے جو شام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

شام میں امریکے کی بری فوج سنہ دو ہزآر پندرہ میں بھیجی گئی تھی جب اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ وائے پی جی کے جنگجوؤں کو تربیت دینے کے لیے کچھ فوجی بھیجے گئے ہیں۔

اس کے بعد شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور اس علاقے میں امریکی فوج کے کئی اڈے، تربیتی مراکز اور ہوائی اڈے بنا لیے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں