امریکہ میں کانگریس کی جانب سے بجٹ منظور نہ ہونے پر حکومتی نظام جزوی طور پر ٹھپ

امریکہ میں بجٹ کی منظوری نہ ہونے کے سبب حکومتی نظام جزوی طور پر ٹھپ ہو گیا جس سے قومی سلامتی، زراعت، ٹرانسپورٹ، ریاستی امور، انصاف کے محکموں کو اپنا کام بند کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ جمعہ کی شام تک ایوان نمائندگان کو آئندہ بجٹ کی منظوری دینا تھی لیکن وہ اس پر متفق نہ ہو سکے اور اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گیا۔

صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ بجٹ میں کم از کم پانچ ارب ڈالر اس منصوبے کے لیے مختص کیے جائیں جس کے تحت وہ اپنے دیرینہ وعدے کے مطابق میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار بنا سکیں۔
امریکہ میں بجٹ کی منظوری نہ ہونے کے سبب حکومتی نظام جزوی طور پر ٹھپ ہو گیا جس سے قومی سلامتی، زراعت، ٹرانسپورٹ، ریاستی امور، انصاف کے محکموں کو اپنا کام بند کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ جمعہ کی شام تک ایوان نمائندگان کو آئندہ بجٹ کی منظوری دینا تھی لیکن وہ اس پر متفق نہ ہو سکے اور اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گیا۔

صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ بجٹ میں کم از کم پانچ ارب ڈالر اس منصوبے کے لیے مختص کیے جائیں جس کے تحت وہ اپنے دیرینہ وعدے کے مطابق میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار بنا سکیں۔
ریپبلکن اور ڈیموکریٹ نمائندگان میں بجٹ پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے تقریباً ایک چوتھائی وفاقی محکموں کو رقوم کی فراہمی جمعے اور سنیچر کی درمیانی رات بارہ بجے منقطع ہو گئی ہے۔

اس سے قومی سلامتی، زراعت، ٹرانسپورٹ، ریاستی امور، انصاف کے محکموں میں کام رکنا شروع ہو گیا ہے جبکہ نیشنل پارکس اور جنگلات کے محکمے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

سنہ 2018 کے دوران تیسری مرتبہ محکموں میں کام جزوی طور پر رکنے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ وفاقی اداروں کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہ کے بغیر کام کرنا پڑے گا یا انھیں عارضی چھٹی پر بھیجنا پڑ جائے گا۔

بجٹ کی منظوری نہ ہونے سے تھوڑی دیر پہلے صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع کی جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں صدر کا کہنا تھا کہ سرکاری کاوبار ٹھپ ہو جانے کے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندوں پر عائد ہوتی ہے۔

دوسری جانب کچھ سینئر ڈیموکریٹس کا الزام ہے کہ صورت حال صدر کے ’برھم مزاج‘ کی وجہ سے بگڑی ہے۔

یاد رہے کہ بدھ کو نمائندگان نے ایک عارضی بِل کی منظوری دی تھی جس کا مقصد وفاقی محکموں کو آٹھ فروری تک کے لیے فنڈم مہیا کرنا تھا، لیکن اس میں صدر ٹرمپ کی مجوزہ دیوار کے لیے رقم شامل نہیں تھی۔

اس موقع پر صدر کو نہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خود ان کے اپنے حامیوں اور ریپبلکن پارٹی کے کئی نمائندوں نے بھی انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ اپنے موقف پر زیادہ ڈٹ گئے اور ان کا اصرار تھا کہ بجٹ میں دیوار کے لیے رقم ہر صورت مختص ہونی چاہیے تاکہ وہ اس کی منظوری دے سکیں۔

تنازع کس بات پر ہے؟

موجودہ قوائد کے مطابق سرکاری اخراجات کے کسی بھی بِل کی منظوری ایوانِ نمائندان دیتا ہے اور کوئی بھی بِل سادہ اکثریت سے منظور کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت مسٹر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو اس ایوان میں اکثریت حاصل ہے، لیکن جنوری میں ایوان کا اختیار ڈیموکریٹس کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

اب تک ایوان نمائندگان میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے پانچ اعشاریہ سات ارب ڈالر کی منظوری دے چکا ہے۔ یہ بِل صدر کے پاس پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے سینٹ میں کم از کم 60 ووٹوں سے پاس کیا جائے، لیکن سینٹ میں ریپبلکن پارٹی کے پاس صرف 51 نشستیں ہیں۔

جہاں تک موجودہ ایوانِ نمائندان کا تعلق ہے، لگتا ہے کہ ایوان دیوار کے لیے فنڈز کسی بھی بِل میں شامل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، لیکن ایوان میں تین جنوری کو اس وقت بہت بڑی تبدیلی آ جائے گی جب وہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہو جائے گی۔

اُس کے بعد ایوانِ نمائند گان میں مسٹر ٹرمپ کی دیوار کے لیے فنڈز کی منظوری کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اس بات کے امکان بھی زیادہ ہو جائیں گے کہ سینٹ کو بھی ایک نئے بِل پر رضامند ہونا پڑے گا جس میں دیوار کے لیے کوئی رقم مختص نہ کی جائے۔

کیا صدر ٹرمپ اس کے بعد اپنے دیوار بنانے کے منصوبے کو ترک کر دیں گے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ صدر کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑ جائے۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے دیوار کے لیے رقم کی منظوری نہ کروا سکنے سے صدر کو اپنے حامیوں کی طرف سے جس تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، اسے دیکھتے ہوئے صدر شاید اُس سیاسی دھچکے کو فوقیت دیں جو انھیں سرکاری کاروبار ٹھپ ہو جانے سے پہنچے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں